داعش کی نوجوان جرمنوں کی بھرتی کے لیے آن لائن مہم
19 جنوری 2017وفاقی جرمن دارالحکومت سے جمعرات انیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق داخلی سلامتی کی نگران جرمن انٹیلیجنس ایجنسی، جو تحفظ آئین کا وفاقی دفتر یا BfV کہلاتی ہے، کے سربراہ ہنس گیورگ ماسین نے آج برلن میں غیر ملکی صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش جرمنی میں نئے جہادیوں کی بھرتی کے لیے اپنی یہ مہم سوشل میڈیا پر اور فوری آن لائن پیغامات کے لیے استعمال ہونے والی (instant messaging) ویب سائٹس کے ذریعے چلا رہی ہے۔
ہنس گیورگ ماسین نے غیر ملکی نامہ نگاروں کو بتایا، ’’آئی ایس یہ مہم اپنے ایسے ’ہیڈ ہنٹرز‘ یا مسلسل نئے ارکان کی کھوج میں رہنے والے کارکنوں کی مدد سے چلا رہی ہے، جو خاص طور پر اپنے حالات سے ناامید یا زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہونے کی شکایت کرنے والے نوجوانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘
وفاقی دفتر برائے تحفظ آئین کے صدر کے مطابق ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے یہ ’ہیڈ ہنٹرز‘ تیرہ چودہ برس تک کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کو بھی بڑے نپے تلے انداز میں نظریاتی طور پر اپنے قریب لانے اور پھر اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماسین نے داعش کی ان سرگرمیوں اور ان کے طریقہ ہائے کار کا کٹر کمیونزم اور ہٹلر دور کی نیشنلسٹ سوشلزم جیسے ماضی کی انتہا پسند تحریکوں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے یہ آن لائن ایجنٹ دل برداشتہ جرمن نوجوانوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنے والدین اور معاشرے کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں۔
روئٹرز کے مطابق ماسین نے صفیہ نامی اس نوجوان مراکشی نژاد جرمن لڑکی کی مثال بھی دی، جس نے گزشتہ برس فروری میں شمالی جرمن شہر ہینوور کے ایک ریلوے اسٹیشن پر خنجر سے حملہ کر کے ایک پولیس اہلکار کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ ایسی ہی ایک مثال اس بارہ سالہ عراقی نژاد جرمن لڑکے کی بھی ہے، جس نے دسمبر کے مہینے میں مغربی شہر لُڈوِگس ہافن میں دیسی ساخت کے دو بموں سے دھماکوں کی کوشش کی تھی۔
BfV کے صدر نے بتایا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے جرمن اداروں کے اہلکار ایسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ داعش کے ایجنٹ نئے جہادیوں کی تلاش میں نوجوانوں پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں جنگجوؤں کے طور پر لڑنے کے لیے داعش کی صفوں میں شامل ہو کر جرمنی سے آج تک جو قریب 900 افراد بیرون ملک گئے، ان میں سے 20 فیصد کے قریب خواتین تھیں۔ ان میں سے بھی چند کی عمریں تو صرف 13 اور 14 برس تک تھیں۔
ہنس گیورگ ماسین کے بقول جرمن سکیورٹی ادارے ملک میں اس وقت مجموعی طور پر 548 ایسے شدت پسند مسلمانوں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کر رہے ہیں، جنہیں ’ملکی سلامتی کے لیے خطرہ‘ سجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ان مذہبی شدت پسندوں کو اب تک اس لیے گرفتار نہیں کیا گیا کہ جرمن قانون کے مطابق جب تک وہ عملاﹰ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتے، انہیں حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔‘‘