1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی کلائمٹ سمٹ کا اُمید اور نا اُمیدی کے سائے میں آغاز

30 نومبر 2023

آج تیس نومبر کو اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (COP28) کا خلیجی ریاست دبئی میں اجلاس شروع ہو گیا۔ دو ہفتوں تک دنیا کی تقریباً 200 ریاستیں اس اجلاس میں موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے موضوع پر تبادلہ خیال کریں گی۔

https://p.dw.com/p/4ZdUm
Dubai COP28
تصویر: Rafiq Maqbool/AP/picture alliance

دبئی کے ایک وسیع نمائشی ہال میں عالمی کلائمٹ سمٹ  (COP28)  کا آغاز ہو گیا ہے۔  تقریباً 70,000 شرکاء کی اس کانفرنس میں شرکت متوقع  ہے۔ اسے آب و ہوا سے متعلق اب تک کا سب سے بڑا اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔

کانفرنس کے دوران کوشش کی جائے گی کہ کوئلہ، تیل اور گیس کے اخراج میں ممکنہ حد تک کمی پر بالآخر کسی ایک پالیسی پر اتفاق ہو جائے۔ دبئی روانگی سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے خبردار کیا کہ عالمی برادری کو فوسل فیول کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عہد کرنا چاہیے۔

دبئی کی چکاچوند اور مہمانوں کی آمد

برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم سمیت عالمی  رہنماؤں اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم عناصر ان 97,000 سے زیادہ لوگوں میں شامل ہیں، جو جگمگاتے اس خلیجی شہر پہنچ رہے ہیں۔

آب و ہوا سے جُڑے مسائل اور ان کے ممکنہ حل کے بارے میں بات چیت کے لیے منعقد ہونے والا یہ اب تک کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ اقوام متحدہ اور میزبان یو اے ای کا کہنا ہے کہ یہ پیرس 2015 ء کلائمٹ سمٹ کے بعد سب سے اہم اجلاس ہوگا۔

Dubai COP28
متحدہ عرب امارات کے امیر شیخ محمد بن زید النہیانتصویر: AMR ALFIKY/REUTERS

پیرس میں تاہم اقوام  نے صنعتی دور سے لے کر اب تک گلوبل وارمنگ کو 2 ڈگری سیلسیس سے کم کرنے اور ترجیحاً 1.5 ڈگری سیلسیس کی محفوظ حد تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔  لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا آف ٹریک ہے اور COP28 کے لیے اکٹھے ہونے والے تقریباً 200 ممالک کے مندوبین کو آب و ہوا کے تحفظ کے لیے اور  زمینی حدت  یا گرمی  بڑھنے سے اس سیارے کو لاحق  بدترین اثرات کو کم کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات میں تیزی لانا ہو گی۔

پاکستانی ماحولیاتی کارکن کو ملا شرم الشیخ میں منفرد اعزاز

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ عالمی رہنماؤں کو فوسل ایندھن کے مکمل خاتمے یا ''فیز آؤٹ‘‘ کے مقصد کے حصول کے لیے تمام تر کوششیں کرنا چاہییں۔ تاہم اس تجویز کی مخالفت کچھ طاقتور ممالک نے کی ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں، جنہوں نے ماضی میں اس بارے میں مذاکرات کو روک دیا  تھا۔

COP28 میں مرکزی توجہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں اب تک ہونے والی محدود پیش رفت پر مرکوز رہنے کی امید کی جا رہی ہے، جس کے لیے ان مذاکرات میں سرکاری سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کے پہلے روز سے وابستہ توقعات

عالمی  کلائمٹ سمٹ کے دوران توقع کی جا رہی ہے کہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کو معاوضہ دینے کے لیے ''لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘‘کے اجراء کی باضابطہ منظوری دے دی گی۔ واضح رہے کہ اس بارے میں ایک سال تک مذاکرات جاری رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امیر قوموں سے تعاون کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ اس فنڈ میں پیسے اکھٹے ہونا شروع ہوں۔

Dubai COP28
COP28 کی تیاریاںتصویر: Rafiq Maqbool/AP/picture alliance

متحدہ عرب امارات  خود کو امیر ترقی یافتہ ممالک کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ یہ خود ضرر رساں گیسوں کے تاریخی اخراج کا سب سے زیادہ ذمہ دار ملک ہے، جبکہ باقی دنیا، جس نے گلوبل وارمنگ میں کم حصہ ڈالا ہے، اس کے بدترین نتائج بھگت رہی ہے۔

COP28 کی میزبانی کے فیصلے نے اس خلیجی ریاست کو تنقید کے ایک طوفان سے دو چار کر دیا تھا۔ خاص طور پر کلائمٹ مذاکرات کے سلسلے کی بات چیت کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری سلطان الجابر‘ کو دی جانا ایک بڑا متنازعہ فیصلہ تھا جو، متحدہ عرب امارات کی ریاستی تیل کمپنی ADNOC کے سربراہ بھی ہیں۔

جابر  نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا اور  سختی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے فوسل ایندھن کے نئے سودوں کو آگے بڑھانے کے لیے COP کی صدارت کا استعمال کیا۔ ان پر یہ الزامات پہلے بی بی سی نے رپورٹ کیے تھے۔ اقوام متحدہ کی آب و ہوا ایجنسی کی سابق سربراہ کرسٹیانا فیگیرس نے پیرس معاہدہ طے پاتے وقت COP میں فوسل فیول کمپنیوں کے کردار پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں '' نا اُمید ہو چکی ہیں‘‘ کہ فوسل فیول کمپنیاں درجہ حرارت کو کم کرنے کے حل کا حصہ بن سکتی ہیں۔

Dubai, Vereinigte Arabische Emirate | COP 28 UN-Klimagipfel
COP28 کی میزبان ریاست تنقید کی زد میں بھیتصویر: Giuseppe Cacace/AFP

گوٹیرش کا ماننا ہے کہ جابر تیل کی صنعت کو یہ بتانے کے لیے بہتر پوزیشن میں تھے کہ 'فوسل فیول فیز آؤٹ‘ ضروری ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر وہ کسی این جی او کے ممبر ہوتے تو انہیں بطور کلائمٹ ایکٹیوسٹ سمجھا جاتا۔

اُدھر آئل چینج انٹرنیشنل کے عالمی پالیسی مہم کے مینیجر، رومین لوولالن نے کہا، ''ایک بہت واضح اشارہ کہ فوسل ایندھن کے دور کو بہت تیزی سے ختم ہونے کی ضرورت ہے، COP28 کے لیے ہمارا لٹمس ٹیسٹ ہے۔‘‘

خیال کیا جا رہا ہے کہ COP28 میں جہاں تمام اقوام، چاہے وہ تیل پر انحصار کرتی ہوں، بڑھتے ہوئے سمندروں کے نیچے ڈوب رہی ہوں یا جغرافیائی سیاسی دشمنی کا شکار ہوں، کی طرف سے متفقہ طور پر فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔

ک م / ع ا(اے ایف پی، روئٹرز)