1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درجنوں امریکی قانون سازوں کا عمران خان کی رہائی پر زور

24 اکتوبر 2024

صدر جوبائیڈن کے نام ایک خط میں ساٹھ سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے کوششوں پر زور دیا ہے۔ ان قانون سازوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

https://p.dw.com/p/4mAuK
عمران خان اگست دو ہزار تئیس سے مخلتف مقدمات کے تحت جیل کی سز کاٹ رہے ہیں
عمران خان اگست دو ہزار تئیس سے مخلتف مقدمات کے تحت جیل کی سز کاٹ رہے ہیںتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

امریکی ایوان نمائندگان کے ساٹھ سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستانی جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے  اسلام آباد حکومت پر واشنگٹن کا اثرو رسوخ استعمال کریں۔

بدھ کے روز امریکی صدر کے نام بھجوائے گئے اس خط میں قانون سازوں نے لکھا، ''ہم آج آپ پر زور دیتے ہیں کہ آپ سابق وزیر اعظم خان سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے پاکستان کی حکومت پر امریکہ کا اثرورسوخ استعمال کریں۔‘‘

عمران خان امریکی پالیسیوں کے کھلے ناقد رہے ہین
عمران خان امریکی پالیسیوں کے کھلے ناقد رہے ہینتصویر: Reuters/J. Ernst

اس خط کے محرک  امریکی نمائندے گریگ کیسر نے کہا کہ  عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس کے متعدد اراکین کی طرف سے اس طرح کی پہلی اجتماعی کال دی ہے۔ خیال رہے کہ عمران خان  امریکی خارجہ پالیسی کے دیرینہ ناقد کے طور پر واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتے ہیں۔

 خان اگست 2023 سے جیل میں ہیں اور اپنے خلاف مجرمانہ نوعیت کے درجنوں مقدمات  کا سامنا کر رہے ہیں۔

2022 میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں اپنے حریفوں کی اتحادی حکومت کے خلاف بارہا احتجاجی تحریک کی کال دے چکے ہیں۔ خان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات، جن کی وجہ سے انہیں فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا تھا، کے سیاسی محرکات ہیں۔

 ان کے پاکستان کی طاقتور فوج کے ساتھ  تعلقات خراب ہیں اور عمران خان  نے فوج کو  اپنی سیاست سے بے دخلی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔  تاہم فوج سیاست میں مداخلت کی تردید کرتی ہے۔

ڈیموکریٹک قانون سازوں نے پاکستان کے انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ دوسری جانب  پاکستانی حکومت خان کے ساتھ ناروا سلوک کی تردید کرتی ہے اور الیکشن کمیشن اس بات سے انکار کرتا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔

عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے پاکستان کی طاقتور فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہیں
عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے پاکستان کی طاقتور فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہو چکے ہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

 واشنگٹن کا کہنا ہے کہ فروری میں منعقد کرائے گئے انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ عمران خان نے ان عام انتخابات میں خود یا اپنی جماعت تحریک انصاف کے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا، لیکن ان کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

اس کے باجود  بھی حکومت  ان کےمخالفین پر مشتمل  سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی قائم کی گئی۔ حکومت اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کام کرنے والے گروپ نے جولائی میں کہا تھا کہ خان کی حراست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ش ر⁄ ا ا (روئٹرز)

قوم 'قیدی نمبر 804' کے ساتھ کھڑی ہے، بیرسٹر گوہر خان