1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درندگی ایک اور بچی کی جان لے گئی

بینش جاوید
21 مئی 2019

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں نابالغ بچی کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے واقع نے پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ بچی کے اہل خانہ حکومت سے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3IopK
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا سب سے خطر ناک ملک ہے۔تصویر: Getty Images

اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں دس سالہ بچی کے قتل اور نوجوان لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات کے بعد پولیس کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  اسلام آباد سے صحافی ذوالقرنین حیدر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد کے قریب پولیس کو دس سالہ بچی کی لاش ملی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس بچی کا تعلق قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی سے ہے۔

 گزشتہ شب پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اس بچی کے والد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پہنچے۔ اس موقع پر محسن داوڑ کا کہنا تھا،’’ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے،  یہاں ریاست کی رٹ کی یہ حالت ہے کہ ایک بچی 15 تاریخ کو اغوا ہوتی ہے، اس کے والدین در بدر ٹھوکریں کھاتے ہیں اور پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی اگر اسلام آباد میں انصاف کا یہ عالم ہے تو پھر باقی ملک میں کیا حال ہوگا۔ ریاست مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔‘‘

ذوالقرنین حیدر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پولیس اب تک اس جرم میں ملوث ملزمان کو گرفتار نہیں کر پائی۔ حیدر کے بقول  وہ گزشتہ کئی برسوں سے جڑواں شہروں میں کرائم رپورٹنگ کر رہے ہیں اور ان کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ قانون پر عمل در آمد کا شدید فقدان ہے۔ اور پولیس کے محکمے میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔

سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی علمبردار طاہرہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ میڈیا کو پوچھنا ہوگا کہ حکومت کہاں ہے، پارلیمان کہاں ہے، عدلیہ کہاں، پولیس کہاں ہے۔‘‘ طاہرہ عبداللہ نے کہا، ’’پاکستان میں صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ جس ملک میں روزانہ ایسے واقعات پیش آتے ہوں وہاں انسانی حقوق کے چند کارکنان جنہیں ملک سے بھگا نہیں دیا گیا اور جنہیں جان سے مار نہیں دیا گیا وہ نشان دہی تو کر رہے ہیں لیکن یہ کارکن حکومت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔‘‘

خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے کارکن اسامہ خلجی نے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ پانچ روز قبل ایک بچی لاپتہ ہوتی ہے لیکن پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی اور ہسپتال بھی پوسٹ مارٹم کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘‘ ماروی سرمد نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر ایک تحریر میں لکھا،’’ جب تک میڈیا آواز نہیں اٹھائے گا کچھ نہیں ہوگا۔ زینب کے کیس میں میڈیا کے دباؤ نے ملزم کی گرفتاری میں مدد فراہم کی۔ اس کیس میں ایسا کیو‌ں نہیں ہو سکتا۔‘‘

’عورت مارچ‘ منتظمین کو ’قتل اور ریپ کی دھمکیاں‘

اسلام آباد کے اس واقع کے ساتھ ساتھ راولپنڈی شہر سے بھی جنسی تشدد کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی۔ اس واقع میں چار پولیس اہلکاروں نے ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس لڑکی کی شکایت پر پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے لیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں جنسی زیادتی کے 3300 اور اس کی کوشش کرنے کے 196 کیسز درج کیے گئے تھے جبکہ اسی سال پنجاب میں گینگ ریپ کے 256 کیسز درج کیے گئے تھے۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا سب سے خطر ناک ملک ہے۔