دل کے مریض کے لیے تنہائی بھی جان لیوا ہو سکتی ہے
8 اگست 2011امریکن جرنل آف کارڈیولوجی میں شائع ہونے والے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے کے ایک سال کے عرصے میں تنہا اور خاندان کے ساتھ رہنے والے، دونوں طرح کے مریضوں کے لیے موت کا خطرہ برابر ہے، تاہم چار سال گزر جانے پر تنہا رہنے والے مریضوں کے لیے یہ خطرہ پینتیس فیصد بڑھ جاتا ہے۔
اس مطالعے کے مطابق دل کا دورہ پڑنے کے بعد مریض کو گھر پر سپورٹ نہ ملے تو بھی ایک سال کے عرصے میں اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ییل اسکول آف میڈیسن کی طالبہ اور محقق Emily Bucholz کہتی ہیں: ’’دل کا دورہ پڑنے کے بعد مریض کو سوشل سپورٹ دینے پر خاص طور پر غور کیا جانا چاہیے۔‘‘
اگرچہ اس تحقیق سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ تنہائی مریض کی قبل از وقت موت کا باعث ہے، تاہم محققین کی ٹیم نے تنہا اور خاندان کے ساتھ رہنے والے مریضوں کے درمیان پائے جانے والے واضح فرق پر زور دیا ہے، جن میں ان کی جنس، نسل اور ازدواجی حیثیت وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب ماہر امراض قلب Sharonne Hayes کہتی ہیں کہ یہ فرق بہت اہم ہیں کیونکہ ان سے مریض کی صحت میں اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے جبکہ موت کا خطرہ بھی کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’’خاندان کے ساتھ اور تنہا رہنے والے مریضوں کے درمیان بعض بنیادی فرق ہیں۔ اس طرح آپ مالٹے کا موازنہ سیب سے کر رہے ہیں۔‘‘
قبل ازیں بعض طبی مطالعوں میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ گہرا سماجی رابطہ صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بعض مطالعوں کے نتیجے میں یہ بھی کہا گیا کہ پالتو جانور بھی جینے کا بہانہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عابد حسین