دلہنوں کے تحفظ کے لیے نیا قانون، جہیز کی لسٹ نکاح نامے میں
6 اپریل 2017اقتصادی طور پر ترقی پذیر، سماجی رویوں میں قدامت پسند اور آبادی کے لحاظ سے مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں شادیوں کے موقع پر دلہن کے خاندان سے تقریباً زبردستی لیے گئے جہیز کو کئی عشروں سے ایک 'لعنت‘ کہہ کر اس کی مذمت کی جاتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جس رسم کو معاشرے کی اکثریت بُرا قرار دیتی ہے، اسی پر وہ ابھی تک عمل پیرا بھی ہے۔
سماجی قول و فعل کے اس اجتماعی تضاد کے حق میں اکثر متعلقہ خاندانوں کی طرف سے کئی طرح کی دلیلیں دی جاتی ہیں۔ کہیں دُلہا کے گھر والے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'ہم نے کوئی جہیز مانگا تو نہیں تھا‘ یا پھر یہ کہ 'جس نے بھی دیا ہے، ہمیں تو نہیں دیا، اپنی بیٹی ہی کو دیا ہے‘۔
دوسری طرف کوئی امیر ہو یا غریب، خود دلہن کے گھر والے بھی اکثر حالات میں جہیز کی رسم کو ایک 'لعنت‘ ہونے کے باوجود زندہ رکھنے کے حق میں یہ دلیلیں دیتے نظر آئیں گے: ’’جہیز دیے بنا گزارہ بھی تو نہیں ہوتا‘‘ یا پھر ''کون چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کو ساری عمر طعنے ملیں کہ وہ شادی کے وقت اپنے ساتھ کیا لائی تھی؟‘‘
پاکستان میں شادیوں کے موقع پر دیا گیا یہی جہیز اس وقت دوبارہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے، جب دلہا دلہن کی آپس میں نہ بن پائی ہو اور معاملہ طلاق تک پہنچ جائے۔ جو دلہن شادی کے وقت جہیز کے ساتھ سسرال جاتی ہے، وہ طلاق کی صورت میں اکثر اکیلی ہی میکے واپس آتی ہے اور جہیز سسرال ہی میں رہ جاتا ہے۔ یہ پہلے ہی جذباتی اور سماجی اذیت سے گزرنے والی دلہن اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوتی ہے۔ اگر دلہن کسی غریب خاندان کی لڑکی ہو تو یہی ناانصافی اپنے مالی اثرات میں ایک المیہ بن جاتی ہے۔
شادی، جہیز اور طلاق ہی کے سلسلے میں پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہٴ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ نے ابھی حال ہی میں ایک اہم اور منفرد قدم اٹھایا۔ عدالت نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس بارے میں قانون سازی کرے کہ آئندہ کسی بھی دلہن کو جہیز میں دیے جانے والے قیمتی سامان یا تحائف کی فہرست باقاعدہ طور پر نکاح نامے میں بھی لکھی جائے گی۔ عدالت کے مطابق اس طرح ایسی خواتین کے مادی مسائل میں کمی کی جا سکے گی، جو پہلے ہی سے طلاق کے تکلیف دہ عمل سے گزر رہی ہوں۔
لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کو جس نئی قانون سازی کا حکم دیا ہے، وہ جہیز کی رسم کی حوصلہ شکنی اور طلاق کی صورت میں دلہن کے ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہو سکے گی۔ اس بارے میں معروف ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''جہیز بنیادی طور پر ایک مشترکہ ازدواجی فنڈ ہوتا ہے تاکہ نیا شادی شدہ جوڑا فوری طور پر آسانی سے اپنے گھر کی ضروریات پوری کر سکے لیکن لوگ اب زیادہ مادہ پرست ہو گئے ہیں۔ مالی اور مادی لالچ کی انتہا ہو چکی ہے اور ایک بھیڑ چال نظر آتی ہے، جہیز دینے والوں میں بھی اور لینے والوں میں بھی۔ اسی بناء پر جہیز نہ لانے والی لڑکیاں نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ بہت سی تو جہیز کے بغیر اپنے والدین ہی کے گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں، جنہیں معاشرہ ترس کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ اسی کو ہم سٹِگما کہتے ہیں۔‘‘
جہیز کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب شادی ہوتی ہے، خاص کر دیہی علاقوں میں، تو وہاں شادی سے پہلے ہی لڑکی اپنا حق شفعہ استعمال کر لیتی ہے، یعنی وہ اپنی جائیداد اپنے کسی بھائی کے نام کر دیتی ہے۔ ایسے میں سسرالی رشتے دار سوچتے ہیں کہ اب کوئی جائیداد تو ان کے ہاتھ آنے والی نہیں، اسی لیے وہ جہیز کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آج تک کسی بھائی نے کسی بہن کے نام اپنا حق شفعہ استعمال نہیں کیا۔ یہ ناانصافی برس ہا برس سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ بیٹیوں کو جہیز دینے میں مقابلے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی سماجی کارکن ثمر من اللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جہاں جہیز کی بات آتی ہے، لوگ کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں، مطالبہ کرنے کا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو جہیز کے ذریعے استحصال کرتے ہیں اور لڑکی کو مال کے طور پر لیتے ہیں۔ ایسے میں بظاہر یہ قانون سازی دراصل لڑکی والوں کی مدد کے لیے مثبت اقدام ہے لیکن بہتری کے اس اقدام کو بھی کچھ لوگ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور بچت کے بجائے لڑکی والوں کا زیادہ خرچہ کروا سکتے ہیں۔‘‘
ثمر من اللہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں تو جہیز کا بنیادی تصور ہی ممنوع ہونا چاہیے کیونکہ نہ اس کا ہمارے قانون سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ہمارے مذہب سے۔ تو پھر ہم کیوں اس کو باقاعدہ ایک سماجی ڈھانچے کی شکل دینا چاہ رہے ہیں؟‘‘
اس بارے میں مسلم ٹاؤن، راولپنڈی کے رہائشی نکاح خواں رشید اللہ نے بتایا کہ انہیں کئی برس ہو چکے ہیں نکاح پڑھاتے ہوئے اور وہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو اس لیے سراہتے ہیں کہ کسی نے غریب کی بچیوں کا بھی سوچا۔ ’’امیر کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، جہیز واپس نہ بھی ملے اگر طلاق کی صورت میں تو۔ لیکن غریب کی تو وہ زندگی بھر کی کمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘
جب نکاح خواں رشید اللہ سے یہ پوچھا گیا کہ جہیز لسٹ کے اندراج سے ان کا کام بڑھ نہیں جائے گا، تو ان کا کہنا تھا، ’’ہم سب کام اللہ کے لیے کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کام زیادہ ہے یا کم۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ نکاح ہو گیا اور کچھ وقت بعد صرف جہیز کم یا بالکل نہ لانے پر کھڑے کھڑے طلاق بھی دے دی گئی۔ ایسے لوگ بہت ظالم ہوتے ہیں۔علماء سمیت ہر طبقے کو چاہیے کہ جہیز کے خلاف سماجی شعور کو اجاگر کرے۔‘‘
عورت فاؤنڈیشن کی ایڈووکیسی ڈائریکٹر ربیعہ ہادی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں جہیز کی لعنت ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہیز اول تو ہونا ہی نہیں چاہیے، لیکن اگر اس نئی قانون سازی کی بات کریں تو ایسا ہونے سے عدالتوں اور معاشرے میں جہیز کے مسائل کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ربیعہ ہادی نے کہا، ’’یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے جہیز کو بےحد کمرشل کر دیا ہے۔ اسے میڈیا بھی پروموٹ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فوم کے گدے یا میٹریس کا اشتہار ہی دیکھ لیں۔ اس میں کہا جاتا ہے، ’میری ماں بھی یہی لے کر گئی تھی، تو میں بھی یہی لے کر جاؤں گی‘۔ دوسرا مسئلہ بننے سنورنے کا ہے، مہنگا پارلر ہو، فوٹو شوٹ اچھا ہو، جیولری، میک اپ اور ڈیزائنر ڈریسز نے بھی جہیز کی نمود و نمائش کو دوبالا کر دیا ہے۔ اب پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ بھی وہی کر رہا ہے، جو کوئی جاہل اور گنوار کرتا ہے۔‘‘
برسوں سے عام لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرنے والی تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کی ماں رضیہ بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اپنے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی شادی کر چکی ہے۔ رضیہ بی بی نے بتایا، ’’عمر بھر کی کمائی میں نے ایک بیٹی کا جہیز بنانے پر لگا دی۔ اس کے سسرال والے پھر بھی خوش نہیں ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ میں تو ایک بیٹی کو بیاہ کر ہی تھک گئی، باقی تین بیٹیوں کی شادی کیسے کروں گی؟‘‘
کائنات پاکستان کے ایک سابق سینیٹر کی بیٹی ہیں اور بہت زیادہ جہیز دینے پر یقین رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے جہیز میں فرنِشڈ بنگلہ، گاڑی، پلاٹ اوربہت کچھ ملا ہے۔ جہیز ذاتی مسئلہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی نہیں دے سکتا تو نہ دے۔‘‘
اسی بارے میں ایک مقامی اسکول ٹیچر فائز خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں انہیں زحمت بنا دیا گیا ہے۔ فائز خان کے مطابق، ’’غریب اور مجبور والدین سسرال میں ہونے والے مظالم پر اپنی بیٹیوں کو واپس اپنے گھر لانے پر تیار نہیں ہوتے۔ اسی لیے ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین محض اپنا گھر بچانے کے لیے تشدد کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں اور اپنے شوہروں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر طلاق کے خوف سے محض گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی رہتی ہیں۔‘‘
ایک اور پاکستانی شہری ردا ممتاز تین بیٹوں کی والدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم نو بہن بھائی تھے۔ غربت کے باعث میں کوئی جہیز نہ لائی تھی۔ اسی لیے ساری عمر سسرال کے طعنے سنتی رہی۔ اب اس سوچ کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں اپنے بچوں کی شادیوں پر کوئی جہیز نہیں لوں گی اور اپنی بہوؤں کو بہت عزت دوں گی، جو کہ ہر لڑکی کا حق ہوتا ہے۔ جو رشتہ مادی لالچ اور مفادات کی بنیاد پر قائم ہو، وہ کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتا۔‘‘