دنیا بھر میں تین عشروں میں چودہ سو سے زائد صحافیوں کا قتل
2 نومبر 2021بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کے قتلکے ان واقعات میں سے بہت زیادہ شہرت حاصل کرنے والا ایک واقعہ میکسیکو میں 2011ء میں ایک رپورٹر کی ٹارگٹ کلنگ کا بھی تھا۔ میکسیکو کے ایک علاقائی اخبار 'نوٹیور‘ کے لیے اپنے آخری کالم میں میگوئل اینجل لوپیز ویلاسکو نامی اس رپورٹر نے عورتوں اور بچیوں کے قتل، اقربا پروری اور پینے کے آلودہ پانی کو موضوع بنایا تھا۔
آخری کالم کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد قتل
لوپیز ویلاسکو کا قلمی نام 'میلو ویرا‘ تھا اور وہ ویرا کروز نامی شہر میں قائم ایک میڈیا کمپنی کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے آخری کالم میں لکھا تھا کہ جن مسائل کو انہوں نے اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے، حکام نے انہیں حل کرنے کے وعدے کیے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر حکام نے وہ مسائل حل نہ کیے، تو وہ انہیں یاد دہانی بھی کرائیں گے۔
امریکا میں مظاہرين کے ساتھ ساتھ ميڈیا بھی زیر عتاب
لیکن پھر چند ہی گھنٹے بعد 55 سالہ لوپیز ویلاسکو مردہ پائے گئے۔ بیس جون 2011ء کو علی الصبح، جب وہ ابھی سو رہے تھے، قاتلوں نے ان کے گھر میں گھس کر لوپیز ویلاسکو، ان کی اہلیہ آگسٹینا اور سب سے چھوٹے بیٹے میسیال کو قتل کر دیا تھا۔ اس تہرے قتل کے دوران قاتلوں نے اپنے آتشیں ہتھیاروں سے 400 سے زائد گولیاں فائر کی تھیں۔
اس خونریز حملے کے بعد لوپیز ویلاسکو کے گھر کے پاس ہی واقع پولیس اسٹیشن سے کوئی ایک بھی پٹرولنگ کار جائے وقوعہ پر نہیں بھیجی گئی تھی۔
نوے فیصد سے زائد قاتل سزاؤں سے بچ جاتے ہیں
آج ایک عشرے سے بھی زائد عرصے بعد میکسیکو میں ریاستی دفتر استغاثہ اس تہرے قتل کے مرتکب افراد کو بس تلاش ہی کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس جرم کے ارتکاب کے محرکات بھی۔ اسی دوران لوپیز ویلاسکو کے دونوں زندہ بچے جان کے خطرات کے باعث ملک چھوڑ کر جلاوطنی کی زندگی اختیار کر چکے ہیں۔
’کورونا کوریج‘ پر نشانہ بننے والے صحافیوں کے لیے ڈی ڈبلیو کا ایوارڈ
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کی میکسیکو میں ملکی نمائندہ بالبینا فلوریس کہتی ہیں کہ لوپیز ویلاسکو کے قاتلوں نے ایک پورا گھر بھی تباہ کر دیا اور ساتھ ہی ایک بڑی تنقیدی آواز کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ''صحافیوں کے قتل کے 90 فیصد سے زائد واقعات میں مجرم سزاؤں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘
دی ہیگ کا پیپلز ٹریبیونل
میکسیکو میں لوپیز ویلاسکو کے قتل کا واقعہ اب علامتی سطح پر ہی سہی مگر نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں ایک عدالت کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ یہ مستقل عوامی عدالت (Permanent People's Tribunal) آج دو نومبر سے دنیا بھر میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں کی کھلی سماعت شروع کر رہا ہے۔
آزادی صحافت کا عالمی دن: ایک سال میں آٹھ پاکستانی صحافی قتل
اس عدالت کے ایجنڈے میں تین سرکردہ صحافیوں کے قتل کے واقعات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ تین مقتول صحافی میکسیکو کے لوپیز ویلاسکو، سری لنکا کے لسانتھا وکرماٹنگے اور شام کے نبیل الشارباجی تھے۔
اس عدالت کو کسی کو سزا سنانے کا اختیار نہیں مگر اس ٹریبیونل میں سماعت کے نتیجے میں نہ صرف عوامی شعور بیدار کیا جا سکتا ہے بلکہ ساتھ ہی مختلف ممالک کی حکومتوں پر دباؤ بھی ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ہاں صحافیوں کی حفاظت کے انتظامات کو بہتر بنائیں۔
اسلام آباد پریس کلب: منظور پشتین کا پروگرام آخری لمحے منسوخ
عوامی عدالت کا آغاز کس نے کیا؟
دی ہیگ میں اس مستقل عوامی عدالت کا قیام صحافیوں کی تین بڑی بین الاقوامی تنظیموں کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہو سکا۔ یہ تنظیمیں رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز، فری پریس اَن لمیٹڈ (ایف پی یو) اور صحافیون کے تحفظ کی کمیٹی سی پی جے ہیں۔
’ورلڈ پریس فریڈم ہیرو‘ کا اعزاز پاکستانی صحافی کے نام
سی پی جے کی لاطینی امریکا اور بحیرہ کیریبیین کے خطے کے لیے پروگرام ڈائریکٹر نیٹالی ساؤتھ وِک کے مطابق، ''یہ پبلک فورم مختلف ریاستوں کو اپنے ہاں صحافیوں کے قاتلوں کو سزائیں سنانے میں ناکامی کے لیے جواب دہ بنانے کا موقع ہے۔‘‘
م م / ع س (زاندرا وائس)