دنیا کے موسم بدل رہے ہیں!
10 اگست 2010یہ بات اب یقینی ہے کہ عالمی سطح پر درجہء حرارت بڑھ رہا ہے تاہم فی الحال اس کی مکمل ذمہ داری انسانی عمل پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ اقوام متحدہ کے عالمی موسمیاتی ادارے نے اس ضمن میں حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ 19 ویں صدی میں جب سے درجہء حرارت کو ناپنے کا قابل بھروسہ نظام دریافت ہوا ہے، تب سے اب تک، رواں سال گرم ترین سال رہا ہے۔ WMO میں موسموں کی شدت ناپنے سے متعلق شعبے کے سربراہ عمر بدر کے مطابق فی الحال ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جس سے موسم کی شدت کے کسی ایک واقعے کی ذمہ داری کسی انسانی فعل پر ڈالی جاسکے۔
معمول سے کئی گنا زیادہ گرمی اس سال یورپی ملک فن لینڈ سے لے کر خلیجی ریاست کویت تک محسوس کی گئی۔ پاکستان، افغانستان اور بھارت کے مختلف علاقوں میں مون سون کی معمول سے زیادہ موسلا دھار بارشیں ہوئیں۔
ادھر روس میں ان دنوں تاریخی سوکھا ہے، لوگ بارش کو ترس رہے ہیں جبکہ گرمی کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے دور رس منفی اثرات سے ہٹ کر ان کے فوری نقصانات کی جانب دیکھا جائے تو، پاکستان، افغانستان، بھارت، روس اور چین میں ہوئی ہلاکتیں واضح ثبوت ہیں۔
’پوٹس ڈام انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ‘سے وابستہ پروفیسر فریڈرک ولہائم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موسموں میں جو شدت دیکھی جارہی ہے، عالمی درجہء حرارت میں ہونے والا اضافہ یقینی طور پر اس کی ایک وجہ ہے۔ پروفیسر فریڈرک جرمنی اور پولینڈ میں بھی اس کے اثرات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
موسمیاتی امور کے ماہر سائنسدانوں پر مشتمل اقوام متحدہ کے ایک پینل نے حال ہی میں مکمل کی گئی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے یورپ میں 2003ء طرز کی گرم لہر آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سات سال قبل کی اس گرمی سے یورپ میں 35 ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پچاس سال میں موسموں کی شدت کی نوے فیصد ذمہ داری انسانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
بعض سائنسدان اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ مؤقف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، جیسے ہمالیہ کے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار۔ سٹاک ہولم یونیورسٹی کے پروفیسر ہیننگ روڈھ کے بقول محض سطحی طور پر روس اور پاکستان کی صورتحال کو عالمی درجہء حرارت میں ہوئے اضافے سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف/خبر رساں ادارے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی