دو کھرب سے زائد کا قرضہ، عوام کے لیے نئی مشکلات کے اشارے
8 جنوری 2019ماہرین کاخیال ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر پندرہ بلین ڈالرز کی ضرورت ہے جب کہ ملک کی اندرونی معیشت کو چلانے کے لیے بھی اربوں ڈالرز چاہییں۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستان پر مختلف عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مختلف نوعیت کے جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں، جس کی وجہ اسلام آباد کو چار بلین ڈالرز سے زائد کی رقم ادا کرنی ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے خزانہ سلمان شاہ نے ان قرضوں کی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا کرنٹ اکاونٹ خسارہ تقریباً پندرہ بلین ڈالرز ہے۔ مالی خسارہ چھ سے سات فیصد ہے۔ تو قرضہ لینا آپ کی مجبوری ہے اور آپ کو مزید قرضہ لینا پڑے گا۔ باوجود اس کے کہ ہم تقریباً پندرہ سے بیس بلین ڈالرز چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے حاصل کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن اس کے بعد بھی قرضے کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ٹیکسز بڑھ نہیں رہے، سرمایہ کاری نہیں ہورہی اور برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔ تو عوام کے لیے مشکلات یقینا ہیں۔‘‘
کئی ماہرین کہتے ہیں کہ روپے کی قدر کم کرنے سے بھی قرضوں کا حجم بڑھا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اسلام آباد اگر آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو ان قرضوں میں مزید اضافہ ہوگا ۔
سابق سیکریٹری خزانہ وقار مسعود کے خیال میں آئی ایم ایف اصلاحات کا مطالبہ کرے گا، جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں مزید کمی کرنی پڑے گی،’’پندرہ فیصد سے زیادہ قرضوں میں اضافہ صرف روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا۔ اب اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو اس میں مزید کمی کرنی پڑے گی، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ سود کی شرح میں اضافہ کی وجہ سے بھی معیشت متاثر ہوگی کیونکہ سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی ہوگی۔ آنے والے وقتوں میں قرضہ مزید بڑھے گا۔‘‘
نون لیگ اور دوسری سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کو ان قرضوں کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے لیکن کئی معیشت دانوں کے خیال میں ان قرضوں کا گہرا تعلق پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی معاشی پالیسیوں سے ہے۔ معروف معیشت دان ڈاکڑ عذرا طلعت کے خیال میں معاشی پالیساں تمام حکومتوں کی ایک جیسی ہیں اور یہ پالیسیاں عوام دوست نہیں ہیں،’’تمام سیاسی جماعتیں نجکاری اور ڈی ریگولیشن کی پالیسیوں پر یقین رکھتی ہیں۔‘‘
عذرا طلعت کے بقول نواز شریف نے بھی ان پالیسیوں کو فروغ دیا اور پی ٹی آئی بھی یہ ہی کر رہی ہے۔ لہذا صرف پی ٹی آئی کو اس کا موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا،’’ہم نے ایسے عالمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جن کے تحت ہمیں ہر حالت میں چیزیں درآمد کرنی ہیں۔ زراعت کو نقصان پہنچانا ہے اور توانائی کی قیمت بڑھانی ہے۔ تو جب تک ہم یہ پالیسیاں نہیں بدلیں گے، حکومت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بہرحال آنے والے وقت میں عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی ۔‘‘