دواؤں کی قیمتیں کون طے کرے، حکومت یا کمپنیاں؟
9 جولائی 2020پاکستان میں گزشتہ کچھ ماہ میں کئی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا لیکن جب کرونا کے دوران دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو حکومت پر بہت زیادہ تنقید ہوئی تھی۔
وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں کیا۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی کلینیکل ٹرائل کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے عام آدمی کو بہت فائدہ ہوگا۔
"دوہزار پندرہ سے بیس تک افراط زر میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی بناء پر دوائیوں کی کمپنیوں نے بھی قیمتوں میں تقریبا پندرہ فیصد اضافہ کیا۔ اگرحکومت مداخلت نہیں کرتی تو آنے والے چند سالوں میں قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی۔ لہذا حکومت نے وسیع تر عوامی مفاد میں یہ فیصلہ کیا ہے، جس سے غریب عوام کو فائدہ ہوگا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اب حکومتی ادارہ ڈریپ خام مال کی قیمتیں، مشینیں، پندرہ فیصد ریٹیلرز کا کمیشن اور دوسرے عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیمتوں کا تعین کرے گی۔
"ملک میں تقریبا اسی ہزاردوائیں بنتی ہیں، جن میں پندرہ فیصد اضافہ ہونے سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ غریب آدمی کو کتنا نقصان ہوا ہوگا۔ سیکریٹری صحت نے اس مسئلےکو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور حکومت نے یہ عوامی فیصلہ کیا۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اب دوائیوں کی قیمتوں کو قابو میں کیا جائے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔"
بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان اور نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی کا کہنا ہے کہ یہ بہت مثبت قدم ہے اور اس کا عوام کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ، "اس بات کی بھی تفتیش ہونی چاہییے کہ دوائیوں کی قیمتوں میں حالیہ برسوں میں اتنااضافہ کیسے ہوا اور اس میں کون ملوث تھا؟ عمران خان کے قریبی ساتھیوں پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر دوائیوں کی کمپنیوں کو قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی۔ ان کا بھی احتساب ہونا چاہییے۔"
ادھر ماضی میں سوئس فارما سے وابستہ رہنے والے سہیل عامر کا کہنا ہے کہ حکومت کا فیصلہ اچھا ہے لیکن اسے بیورکریٹس پر نظر رکھنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ، "کمپنیوں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ وہ پیسہ دے کر لوگوں کو خرید لیں۔ ایک سابق وزیر پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بھاری رقم لے کر کمپنیوں کو قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی تھی۔ اس لیے اب حکومت کو بیوروکریٹس پر نظر رکھنی پڑے گی اور دواؤں کی قیمتوں کو نیچے لانا ہوگا تاکہ عوام کو ریلف مل سکے۔"
تاہم فارما انڈسٹری نے اس فیصلے پر سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے دواسازی کی صنعت پر منفی اثرات پڑیں گے۔
پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسویسشن کے چیرمین محمد ذکا الرحمن کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے بیورکریسی کے ہاتھ مضبوط ہونگے۔ "ہم اس فیصلے کے خلاف حکومت سے بھی رجوع کریں گے اورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ اس فیصلے سے انڈسٹری کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔ پہلے جو طریقہ کار تھا، وہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان میں دوائیں بہت مہنگی ہیں۔ "ہیپاٹائیٹس کی دوائیں امریکا اور دوسرے ممالک میں دیکھیں اور اس کا موازنہ یہاں کی قیمتوں سے کریں۔ پاکستان میں سستی ترین دوائیں ہیں لیکن حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈالر کا ریٹ گرا ہے۔ خام مال کی قیمتیں بڑھی ہیں اور کرونا کی وجہ سے بھی ہماری انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے کام پہلے ہی سستی کا شکار ہیں۔ انہوں نے فروری دوہزار انیس سے نئی دواؤں کی اجازت نہیں دی ہے، جو کہ رجسٹرڈ ہیں اور ان کی صرف قیمتوں کا تعین ہونا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات التواء کا شکار ہیں اور اب حکومت نے پرائسنگ بھی بیورکریسی کے ہاتھ میں دے دی ہے، جس سے ہمیں ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔"