دھونس و دھاندلی میں مصر کے اندر پارلیمانی انتخابات
28 نومبر 2010لگ بھگ آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس شمالی افریقی عرب ملک میں آج سلامتی کے کڑے حصار میں ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ حکمراں جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ہی اکثریت حاصل کرلے گی۔ ملک بھر کے 254 اضلاع میں اہل رائے دہندگان کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بد امنی کے خطرے کے پیش نظر ٹرن آؤٹ نہایت کم رہنے کا خدشہ ہے۔ گزشتہ انتخابات میں خونریز ہنگاموں کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
انسانی حقوق کے لئے سرگرم مصری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انتخابی عمل مانیٹر کرنے سے متعلق ان کی متعدد تجاویز کو رد کیا ہے۔ مصری الیکشن کمیشن کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے چھ ہزار سے زائد اجازت نامے جاری کئے ہیں۔ واشنگٹن میں ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر ٹام مالینواوسکی کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل کی ساکھ بہت زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ وہ واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ یہ انتخابات کسی بھی صورت آزاد و شفاف نہیں ہوں گے۔
مصر میں حزب اختلاف کی نمایاں جماعت اخوان المسلمون ہے، جس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس گروپ نے حکومتی دباؤ کے بعد اپنے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں میدان انتخاب میں اتارا ہے۔ عرب دنيا کی اہم ترين تحريک اخوان المسلمون مصر ميں سرکاری طور پر تو ممنوع ہے ليکن وہ بہت پُر اثر ہے اور عوام بڑی تعداد ميں اُس کے حامی ہيں۔
مصر میں مذہبی جماعتوں پر انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ سکیورٹی اداروں نے انتخابات سے قبل کریک ڈاؤن کرکے اس تنظیم کے درجنوں کارکنوں کو حراست میں بھی لیا ہے۔ ايمنيسٹی انٹر نيشنل نے بھی اپنی ايک حاليہ رپورٹ ميں تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخوان المسلمون کے علاوہ دوسرے گروپوں کے خلاف بھی سخت کارروائياں کی جا رہی ہيں۔
حالیہ انتخابات اگلے سال کے صدارتی انتخاب کے حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ طویل عرصے سے مصر پر حکمرانی کرنے والے 82 سالہ صدر حسنی مبارک نے فی الحال یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ اس بار بھی امیدوار ہوں گے یا نہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر