دہشت گردی، عالمی انڈیکس کا اجراء
4 دسمبر 2012منگل 4 دسمبر کو جاری کیے گئے اس جائزے میں بتایا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر سن 2001ء کے دہشت گردانہ واقعات کے بعد کے عشرے میں دہشت گردانہ واقعات میں ہر سال چار گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوتا رہا۔ ان واقعات کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں عراق میں ہوئیں، جس کے بعد پاکستان، افغانستان، بھارت اور یمن کا نمبر آتا ہے۔
سن 2011ء میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 7473 تھی، جو کہ 2007ء کے مقابلے میں پچیس فیصد کم ہے۔ ان ہلاکتوں میں خود کُش بمبار اور دیگر حملہ آور بھی شامل ہیں۔ اس انڈیکس کی تیاری کے لیے گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس سے استفادہ کیا گیا ہے، جس کا انتظام یونیورسٹی آف میری لینڈ میں قائم ایک کنسورشیم چلا رہا ہے۔ سکیورٹی امور پر ریسرچ کرنے والے عموماً اسی ڈیٹا بیس کو استعمال کرتے ہیں۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے محققین کے خیال میں القاعدہ کے خلاف مغربی دنیا کی جنگ کے ایک حصے کے طور پر امریکا کی جانب سے مختلف مقامات پر کی جانے والی فوجی مداخلت سے حالات غالباً مزید خراب ہو گئے۔ مزید یہ کہ یہ ثابت کرنا نامکن ہے کہ امریکا کی اس فوجی مداخلت کے نتیجے میں امریکی سرزمین درحقیقت زیادہ محفوظ بھی ہو گئی۔
ایک ای میل انٹرویو میں انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین اسٹیو کلیلیا نے بتایا: ’’نائن الیون کے بعد دہشت گردانہ واقعات سن 2000ء سے پہلے کی سطح پر چلے گئے لیکن پھر عراق پر حملے کے بعد ان واقعات میں ڈرامائی رفتار سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا:’’گزشتہ عشرے کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں تقریباً ایک تہائی ہلاکتیں صرف ایک ملک یعنی عراق میں ہوئیں۔ عراق، پاکستان اور افغانستان کو ملا کر دیکھا جائے تو دہشت گردی سے پچاس فیصد سے زیادہ ہلاکتیں انہی تین ملکوں میں ہوئیں۔‘‘
اس جائزے کے مطابق 2002ء میں دہشت گردی کے 982 واقعات ہوئے، جن میں 3823 افراد موت کا شکار ہوئے جب کہ 2011ء میں دہشت گردانہ واقعات کی تعداد بڑھ کر 4564 تک جا پہنچی، جن میں مرنے والوں کی تعداد 7473 رہی۔
اس جائزے میں وہ ہلاکتیں شامل نہیں کی گئیں، جو فضائی بمباری جیسی کسی ایسی کارروائی کے نتیجے میں ہوئیں، جسے حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔
جائزے کے مطابق افغانستان اور پاکستان میں ہلاکتوں میں شدت عراق جنگ کے بعد ہی آئی اور وہ بھی زیادہ تر اُس وقت، جب ان دونوں ملکوں میں امریکی حمایت کے ساتھ نیٹو اور پاکستانی حکومت کی فوجی کارروائیاں عمل میں آئیں۔
کلیلیا نے کہا کہ غیر ملکی طاقتوں کو کسی ملک میں فوجی مداخلت بہت سوچ سمجھ کر ہی کرنی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء میں جن ملکوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے، وہ شام اور یمن تھے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے مجموعی طور پر 158 ملکوں کے حالات کا جائزہ لیا گیا، جن میں سے محض 31 ممالک ایسے تھے، جہاں ایک بھی ایسی کارروائی نہیں ہوئی، جسے ’دہشت گردی’ کا نام دیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق اگر نائن الیون کے حملوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو بھی گزشتہ عشرے کے دوران شمالی امریکا دہشت گردی سے سب سے کم متاثر ہونے والا خطہ رہا۔
(aa/ss(reuters