1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ اور نوجوان خود کش حملہ آور

14 فروری 2011

پاکستانی شہر مردان میں ابھی حال میں جو نوجوان خود کش حملہ آور 31 زیر تربیت فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنا، اُس میں خطرناک بمبار کی تمام تر خصوصیات پائی جاتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/10Gyi
تصویر: picture-alliance/dpa

وہ عام نظر آنے والا لیکن تربیت یافتہ تھا، بہت غریب بھی اور اس کی پوری طرح برین واشنگ بھی ہو چکی تھی۔پولیس نے اس حملے میں خود بھی ٹکرے ٹکرے ہو جانے والے اس لڑکے کے مختلف جسمانی اعضاء جمع کیے، پھر اس کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائے گئے۔ اس حملہ آور کے سماجی پس منظر کا پتہ چلایا گیا اور یہ بھی طے ہو گیا کہ اس کی عمر محض بارہ سے پندرہ برس کے درمیان تھی۔

ہاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بڑا اہم حلیف ہے۔ اسے طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلسل بم حملوں کا سامنا بھی ہے، جو اس ملک کو غیر مستحکم بنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ مردان میں فوجی کیڈٹوں پر خود کش حملہ گزشتہ جمعرات کو کیا گیا تھا۔ مردان کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار ذیشان خان کہتے ہیں کہ خطرہ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ نوجوان خود کش حملہ آور طالبان کے سب سے سنسنی خیز ہتھیاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

Demonstration in Pakistan
تصویر: AP

ذیشان خان کے مطابق ایسے واقعات کے نتائج جن میں حملہ آور کسی اسکول کا یونیفارم پہنے کوئی بچہ نظر آئے، دور رس ہوتے ہیں۔ ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہو گا۔ پاکستان میں طالبان تحریک کے القاعدہ سے قریبی رابطے ہیں اور وہ ملکی سلامتی کے لیے ابھی تک ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس تحریک نے مردان میں خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے میں کوئی دیر نہ کی۔

پاکستان میں کسی اسکول کا طالب علم اپنی کتابیں چھوڑ کر کوئی بمبار جیکٹ کیوں پہن لیتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں لیکن سب سے اہم وجہ اس ملک میں پائی جانے والی غربت ہے۔ کئی خاندان اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں نہیں بھجوا سکتے۔ اس لئے وہ ایسے دینی مدرسوں میں داخل کرا دیے جاتے ہیں، جہاں انتہا پسندی اذہان میں بھر دی جاتی ہے اور اس طرح یہ رجحان شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔

ایسے ممکنہ حملہ آوروں کی فوجیوں کی طرح تربیت کی جاتی ہے اور مدرسوں کے اساتذہ انہیں بتاتے رہتے ہیں کہ کس طرح وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ یہ بچے جب ان مدرسوں سے فارغ ہوتے ہیں تو ذہنی طور پر وہ کسی نہ کسی عسکریت پسند گروپ میں شامل ہونےکے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اسلام آباد میں امن سے متعلق علوم کے پاکستانی ادارے کے خود کش حملوں کا قریب سے مطالعہ کرنے والے ایک ماہر عبدالباسط کے بقول ان خود کش حملہ آوروں کو دوسرے بچوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ خدا کے خاص بندے ہیں، جنہیں ایک مقدس فریضے اور ایک پاک جنگ کے لیے چنا گیا ہے، تاکہ اسلام کی مذہبی عظمت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Flash-Galerie Stimmung in Afghanistan
تصویر: picture alliance/landov

پاکستانی عوام کی اکثریت اسلام کی اس تشریح کو مسترد کرتی ہے، جس کے حامی طالبان ہیں۔ لیکن پاکستانی عوام اب یہ بھی جانتے ہیں کہ طالبان کے نظریات پر کھل کر تنقید کرنا بہت خطر ناک بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خود کش حملہ آوروں کا تعلق ہے تو سالہا سال کی نظریاتی تربیت اور برین واشنگ کے بعد ان کے لیے ایسے حملے کرنا اور خود بھی ہلاک ہو جانا ان سے وابستہ توقعات کا قدرے آسان حصہ ہوتا ہے۔

عبدالباسط کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستانی حکومت ملک کے غریب عوام کی اقتصادی حالت بہتر نہیں بناتی، انہیں کسی روشن مستقبل کی ضمانت نہیں دیتی، تب تک ایک دوسرے سے جڑے ان حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکے گی، جو غریب بچوں اور پسماندہ طبقے کے نوجوانوں کو خود کش حملہ آور بنا دیتے ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: کشور مصطفٰی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں