پاکستان: مسجد میں دھماکہ، کم ازکم 66 افراد ہلاک
5 نومبر 2010طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ اس وقت ہوا، جب نمازِ جمعہ اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ سینیئر صوبائی عہدے دار شاہد اللہ نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’ہلاکتوں کی تعداد 66 ہو گئی ہے، اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
شاہد اللہ کے مطابق 80 افراد زخمی ہیں۔ ایدھی ایمبولینس سروسز کے مجاہد خان نے جرمن خبررساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہے، جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ دھماکے کے وقت ولی مسجد میں تقریباﹰ 300 افراد موجود تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور مسجد کے مرکزی ہال میں پہنچا، جہاں اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دھماکے سے نہ صرف مسجد کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس کے اردگرد موجود گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
مسجد میں موجود 15سالہ مُحب اللہ نے روئٹرز کو بتایا، ’میں نے نماز ختم ہی کی تھی کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں گر گیا تھا۔‘
درہ آدم خیل کے قریبی ضلع کوہاٹ کے ایڈمنسٹریٹر خالد خان عمرزئی نے ڈی پی اے کو بتایا کہ حملہ آور کی عمر 14سے 15برس تھی۔ ڈی پی اے نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ خودکش بمبار کے ساتھ مسلح افراد بھی تھے، جنہوں نے دھماکے کے بعد ہوائی فائرنگ کی اور غائب ہوگئے۔
پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں طبی حکام کے مطابق مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ ہسپتال کے باہر عورتوں کی چیخ و پکار، خون آلود کپڑوں میں ملبوس بزرگوں کے ساتھ ساتھ ایک زخمی بچے کو بھی دیکھا گیا۔
دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت فتح تک انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا، ’دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہم مزید جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہم ان انتہاپسندوں کو شکست دے کر رہیں گے، چاہے وہ کسی بھی طرح کے ہتھکنڈے اپنائیں۔ وہ غلط ہیں اور ہم صحیح ہیں۔‘
اس سے قبل خطرناک دھماکہ ستمبر میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہوا تھا۔ اس وقت خودکش بمبار نے ایک شیعہ ریلی کو نشانہ بنایا تھا، جس میں 54 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسراعوان