دہلی فسادات: ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ
26 فروری 2020بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شدید تناؤ کی کیفیت ہے اور بیشتر متاثرہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ر صورت حال کا جازہ لینے کے لیے سلامتی سے متعلق مرکزی کابینہ کی کمیٹی کی ایک میٹنگ بھی ہوئی ہے۔ کشیدگی کی وجہ سے شدید متاثرہ علاقوں میں کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔
بدھ 26 فروری کو بھی شمال مشرقی دہلی کے بعض علاقوں میں آگ لگانے کے واقعات رونما ہوئے۔ اس دوران پولیس اور نیم فوجی دستوں کا متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ جاری ہے۔ دہلی میں آج سے بارہویں اور دسویں جماعت کے امتحانات شروع ہونے والے تھے جنہیں متاثرہ علاقوں میں ملتوی کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے حالات پر قابو پانے پانے کے لیے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی 67 اضافی کمپناں تعینات کرتے ہوئے بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دے رکھے ہیں۔
ادھر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال نے دیر رات میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور صبح انھوں نے صورت حال سے متعلق کابینہ کو بریف کیا۔ حکام کے مطابق بیشتر افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ ادھر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جعفرآباد میں کئی ہفتوں سے جاری خواتین کے احتجاجی دھرنے کو گزشتہ شب ختم کرانے کے ساتھ ساتھ اس میں شریک خواتین کو ہٹا دیا گيا ہے۔
دلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے صورت حال کو انتہائی تشویشناک بتاتے ہوئے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، "میں رات بھر بہت سے لوگوں کے رابطے میں رہا ہوں، اپنی تمام کوششوں کے باوجود پولیس حالات پر قابو نہیں پا سکی ہے، متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر فوج کو تعینات کرنے اور کرفیو نافذ کرنے ضرورت ہے۔ میں اس کے لیے وزیر داخلہ کو لکھ رہا ہوں۔" واضح رہے کہ دہلی میں سکیورٹی کے تمام معاملات اور پولیس مرکزی حکومت کے ماتحت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین رہنماؤں کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست دی گئی درخواست کی پر سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پولیس خود کارروائی کرے اور بدھ 26 فروری کی دو پہر تک اپنی کارروائی سے عدالت کو آگاہ کرے۔ دلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے اس سلسلے میں نصف شب میں سماعت کی اور پولیس کو ہدایات جاری کیں کہ کرفیو زدہ علاقوں سے زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کے مناسب اقدامات کیے جائیں۔
شمال مشرقی دلی میں بھجن پورہ، جعفرآباد، سیلم پور، کراول نگر، موج پو، چاند باغ اور دیال پور جیسے علاقے تشدد سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جہاں ایک خاص مذہبی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دہلی کے انگریزی کے بعض بڑے اخبارات نے لکھا ہے کہ ان مذہبی فسادات کے دوران مسلمانوں کی دکانوں اور مکانات کو چن چن کر نشانہ بنایا گيا ہے۔ میڈیا میں پولیس کے جانبدارانہ رویے پر بھی سخت نکتہ چینی جاری ہے۔ ایسے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکے ہیں جس میں پولیس کو بلوائیوں کی مدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔