دیوار برلن کے انہدام کے پچیس برس، خصوصی تقریبات کا آغاز
7 نومبر 2014نو نومبر 1989ء کو دیوار برلن گرا دی گئی تھی، جس کی وجہ سے منقسم جرمن ریاستوں کا اتحاد ممکن ہو سکا تھا۔ اس برس اتوار کے دن دیوار برلن کے انہدام کے پچیس برس مکمل ہو رہے ہیں، اس لیے نہ صرف جرمن عوام بلکہ حکومت بھی اس تاریخی دن کو بھرپور طریقے سے منانا چاہتی ہے۔ اس سال سرکاری طور پر تین روزہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے، جن کی سرپرستی جرمن چانسلر انگیلا میرکل خود کر رہی ہے۔
ان تقریبات میں نہ صرف متعدد عالمی شخصیات شریک ہو رہی ہیں بلکہ اس دوران منعقد کیے جا رہے رنگا رنگ پروگراموں میں بین الاقوامی فنکار بھی اپنے فن کا مظاہرے دیکھائیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دو ملین افراد ان تین دنوں کے دوران جرمن اتحاد کی علامت تصور کیے جانے والے مشہور زمانہ برانڈن برگ گیٹ کے قرب و جوار میں منائی جانے والی مختلف تقریبات میں شریک ہوں گے۔
ان تقریبات کا اہم دن نو نومبر بروز اتوار ہو گا، جب جرمن چانسلر انگیلا میرکل ’برمائیر اسٹراسے‘ نامی ایک شاہراہ پر ایک اہم نمائش کا افتتاح کریں گی۔ یہ وہی تاریخی سڑک ہے، جہاں دیوار برلن کھڑی کرتے ہوئے نہ صرف اس سڑک بلکہ جرمنوں کو تقسیم کر دیا گیا تھا۔
ساٹھ سالہ میرکل مشرقی جرمنی میں پلی بڑھی تھیں۔ اس خاص دن کی مناسبت سے انہوں ںے اپنے تازہ پوڈ کاسٹ پیغام میں عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ آپ ہرگز نہیں بھول سکتے کہ اس دن (نو نومبر) کو آپ نے کیسا محسوس کیا تھا۔ کم ازکم میں وہ عالم کبھی نہیں بھولوں گی۔‘‘ کمیونسٹ دور کی تلخیوں کو یاد کرتے ہوئے انگیلا میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’مجھے آزادی کے اس احساس کے لیے 35 برس انتظار کرنا پڑا، اور اس احساس میری زندگی ہی بدل دی۔‘‘
اس برس دیوار برلن کے انہدام کے لیے خصوصی تقریبات ’آزادی کے لیے حوصلہ‘ کے عنوان کے تحت منائی جا رہی ہیں۔ اس دوران اس پرامن انقلاب کو یاد کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں کمیونسٹ حکام نے اٹھائیس برس بعد مشرقی جرمنی کے باشندوں کو مغربی جرمنی داخل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ سرد جنگ کے زمانے میں مشرقی زندگی میں جرمن عوام ’قیدیوں جیسی زندگی‘ بسر کرنے پر مجبور تھے اور انہیں مغربی جرمنی میں مقیم اپنے رشتہ داروں اور پیاروں سے ملنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ سابقہ مشرقی جرمن ریاست نے 1961 میں دیواربرلن اس لیے تعمیر کرنا شروع کی تھی تا کہ مشرقی حصے کے شہریوں کو فرار ہو کر مغربی برلن، یعنی وفاقی جمہوریہ جرمنی میں پناہ لینے سے روکا جا سکے۔ اٹھائیس برس سے بھی زیادہ عرصے تک موجود رہنے والی اس دیوار کو مختلف جگہوں سے عبور کرنے کی کوشش میں مشرقی جرمنی سے مغربی برلن میں داخلے کے خواہش مند کُل کم ازکم 136 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔