پوٹن اور کم جونگ ان کے مابین رائفلوں کا تبادلہ
15 ستمبر 2023کریملن نے بتایا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے گزشتہ دنوں ملاقات کے دوران ایک دوسرے کو تحائف بھی پیش کیے۔ روس کے ایک خلائی مرکز میں ہونے والی ملاقات کے دوران پوٹن نے شمالی کوریا کے رہنما کو اعلی معیار کا ایک روسی رائفل پیش کیا جب کہ کم جونگ ان نے انہیں ایک بندوق پیش کی۔ روسی رہنما نے اپنے مہمان کو خلاء بازی کے دوران استعمال کیے جانے والے دستانے بھی دیے۔
کم جونگ ان بدھ کے روز اپنی بکتر بند ٹرین کے ذریعہ شمالی کوریا سے روس کے انتہائی مشرق میں واقع خلائی مرکز ووستوخنی کوسموڈروم پہنچے تھے، جہاں دونوں رہنما گرم جوشی کے ساتھ ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھر متعدد امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
کم جونگ ان اور ولادیمیر پوٹن میں کیا باتیں ہوئیں؟
کریملن کے ترجمان دمیتری پیشکوف سے جب پوچھا گیا کہ کیا دونوں رہنماؤں نے تحائف کا بھی تبادلہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ صدر پوٹن نے کم کو روسی ساختہ رائفل اور اسپیس سوٹ کے دستانے کی ایک جوڑی دی۔ یہ دستانے اس خلائی سوٹ کا حصہ ہیں، جو کئی بار خلاء میں استعمال ہوا تھا۔
پیشکوف نے بتایا کہ بدلے میں کم جونگ ان نے پوٹن کو شمالی کوریا میں تیار کی گئی ایک بندوق اور دیگر تحائف دیے۔دونوں رہنماؤں نے انگارا خلائی اسٹیشن اور سویوز ٹو لانچ کرنے والے کمپلکس کا دورہ کیا۔
مبصرین کے مطابق خلائی اڈے پر ہونے والی ملاقات کی ایک خاص علامتی نوعیت ہے بالخصوص اس پس منظر میں کہ پیونگ یانگ نے حال ہی میں دو مرتبہ اپنے فوجی جاسوسی سیٹیلائٹ مدار میں رکھنے کی کوشش کی، جس میں وہ ناکام ہو گیا تھا۔
جنگی طیارہ ساز کارخانے کا دورہ
روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے بتایا کہ کم جونگ ان جمعے کے روز روس کے انتہائی مشرق میں واقعے شہر کومسومولسک آن آرمر میں روسی جنگی طیارے تیار کرنے والے ایک کارخانے کو دیکھنے گئے۔اس کارخانے میں سخوئی 35 اور سخوئی 57 جیسے جدید ترین لڑاکا طیارے تیار کیے جاتے ہیں۔
کم جونگ ان روس میں: کیا پوٹن شمالی کوریا سے ہتھیار لیں گے؟
تاس کے مطابق ریلوے اسٹیشن پر ان کے لیے سرخ قالین بچھائے گئے تھے، جہاں علاقائی اور دیگر اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا۔
صدر پوٹن نے اس سے پہلے روس کی سرکاری ٹی وی کو بتایا تھا کہ کم ولادی ووستوک میں روس کے بحرالکاہل جنگی بیڑے، ایک یونیورسٹی اور دیگر کارخانے دیکھنے جائیں گے۔ روسی صدر ملاقات کے بعد ماسکو لوٹ آئے ہیں لیکن کم جونگ ان کا دورہ ابھی جاری رہے گا۔
شمالی کوریا میں سرکاری میڈیا نے پوٹن کے ساتھ کم کی سربراہی ملاقات کو "تاریخی" قرار دیا ہے۔
پوٹن کو شمالی کوریا کے دورے کی دعوت
ماسکو نے جمعرات کو اس بات کی تصدیق کر دی کہ پوٹن نے شمالی کوریا کے دارالحکومت پیونگ یانگ کا دورہ کرنے کے لیے کم جونگ ان کی دعوت "شکریے کے ساتھ" قبول کرلی ہے۔ شمالی کوریا کی سرکاری ٹیلی وژن نے پہلے ہی اس کا اعلان کیا تھا۔
شمالی کوریا سے گہرے تعلقات چاہتا ہوں، روسی صدر
کریملن کے ترجمان پیشکوف نے کہا کہ پوٹن کے مجوزہ دورے سے قبل اس کی تیاریوں کے سلسلے میں ماسکو وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کو پیونگ یانگ بھیجے گا۔ یہ دورہ اکتوبر میں متوقع ہے۔
یہ پوٹن کا شمالی کوریا کا دوسرا دورہ ہو گا۔ وہ آخری مرتبہ جولائی 2000 میں کم کے آنجہانی والد کم جونگ ال سے ملاقات کے لیے پیونگ یانگ گئے تھے۔ کم نے پچھلے مرتبہ سن 2019 میں روس کا دورہ کیا تھا۔
امریکہ کی وارننگ
کم کے اس دورے کے دوران بین الاقوامی پابندیوں کی ممکنہ خلاف ورزی کرتے ہوئے روس کے ساتھ ہتھیاروں کے معاہدے کے امکانات بھی ہیں۔ روس نے شمالی کوریا میں تیارہ کردہ توپوں کے گولوں کے ذخیرے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، جسے ممکنہ طور پر یوکرین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف شمالی کوریا سوویت دور کے اپنے فوجی ساز و سامان بالخصوص فضائیہ اور بحریہ کے زیر استعمال ہتھیاروں کو جدید بنانے میں بھی روس کی مدد چاہتا ہے۔ امریکہ نے ان پر خدشات ظاہر کیے ہیں۔
امریکہ نے روس کو ہتھیار دینے پر شمالی کوریا کو خبردار کیا
جمعرات کے روز امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے قومی سلامتی مشیروں نے فون پر بات چیت کی اور روس اور شمالی کوریا کے درمیان ہتھیاروں کے ممکنہ سودے پر "انتہائی تشویش" کا اظہار کیا۔ جنوبی کوریا کے صدارتی دفتر کے مطابق انہوں وارننگ دی کہ اگر روس اور شمالی کوریا نے ایسا کیا تو انہیں اس کی "بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔"
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ تینوں ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا سے روس کو ہتھیاروں کی فراہمی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ جب کہ روس نے خود بھی ان قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے آبنائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے حوالے سے اپنے تعاون کا بھی اعادہ کیا۔
ج ا/ (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)