راحیل شریف کے جانشین کا انتخاب، نواز شریف کے لیے اہم سوال
28 ستمبر 2016اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے اپنے ایک تجزیے میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ملک کی بہت طاقت ور فوج کا نیا سربراہ کس کو بنایا جانا چاہیے، اس سوال کا جواب تلاش کرنا نواز شریف کے لیے اس وجہ سے بھی بہت اہم معاملہ ہو گا کہ فوج کا نیا سربراہ بھی پاکستان کے ایٹمی ہمسایہ ملک بھارت اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی سمت کے تعین میں واضح اثر و رسوخ کا حامل ہو گا۔
پاکستانی فوج کے موجودہ چیف آف سٹاف جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ نومبر میں اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے پر وہ اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ ان کے بعد اس اعلیٰ ترین عسکری عہدے پر کس کو تعینات کیا جائے گا، یہ فیصلہ آئین کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف ہی کو کرنا ہے۔ اس بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اب تک جو قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، ان کے مطابق اپنے موجودہ عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی جنرل راحیل شریف ممکنہ طور پر اپنی ساری یا کچھ ذمے داریاں اپنے ہی پاس رکھنے کے خواہش مند ہو سکتے ہیں۔ لیکن کس طرح، اس بارے میں میڈیا پر ماہرین کی طرف سے بیان بازی کی بھی کوئی کمی نہیں۔
جنرل راحیل شریف عام پاکستانی شہریوں میں بہت مقبول ہیں اور وہ انہیں فوج کے سربراہ کے ساتھ ساتھ جرائم، بدعنوانی اور اسلام کے نام پر عسکریت پسندی کرنے والوں کے خلاف جنگ میں ایک بہت اہم شخصیت کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ راحیل شریف نے کئی حوالوں سے سکیورٹی پالیسی اور عدلیہ سمیت مختلف حکومتی معاملات پر فوج کی گرفت مضبوط کی ہے لیکن فوج ابھی تک اس امکان کو سرے سے مسترد کرتی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی موجودہ مدت میں کوئی توسیع کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ابھی حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، ’’میں آپ سے درخواست کروں گا کہ ہر قسم کی قیاس آرائیوں سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ ہم اس بارے میں پہلے ہی اپنی پوزیشن واضح کر چکے ہیں۔‘‘ پاکستانی فوج کی طرف سے اس موضوع پر اس سے زیادہ کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ماضی میں کئی مرتبہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرتے دیکھ چکا ہے۔ ملکی فوج کے اقتدار پر قبضہ کر لینے کا ایک عمل تو 1999ء میں بھی دیکھنے میں آیا تھا، جب جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوج نے نواز شریف ہی کی ایک منتخب حکومت برطرف کر دی تھی۔ اس پس منظر میں جنرل راحیل شریف کے موجودہ عسکری عہدے کی حتمی مدت کے بارے میں خود وزیر اعظم نواز شریف کے چند قریبی مشیروں سمیت کئی حلقوں میں شبہات ابھی تک پائے جاتے ہیں۔
نواز شریف کے ایک قریبی مشیر نے تو روئٹرز کو یہ بھی بتایا، ’’فوجی سربراہان اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ سوچ اپنانے میں کوئی دیر نہیں کرتے کہ اب تک وہ ناقابل تسخیر ہو گئے ہیں۔‘‘ نواز شریف کے اس مشیر نے یہ بیان اس شرط پر دیا کہ ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی کیونکہ اس شخصیت کو فوجی تقرریوں کے بارے میں کوئی بھی بیان دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف سرگرم دس ہزار کے قریب امریکی فوجیوں کی موجودگی سمیت کئی متنوع عوامل کے باعث پاکستان میں نئے فوجی سربراہ کی آئندہ تقرری پر اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک سیاسی اور عسکری حلقے بھی نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔
روئٹرز نے لکھا ہے کہ نواز شریف کے تین قریبی مشیروں کے مطابق ملکی وزیر اعظم کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کے لیے چار ممکنہ امیدواروں کی تفصیلات بھجوائی گئی ہیں۔ یہ افسران لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے، لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد اور لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں۔ ان میں سے جاوید اقبال رمدے کو مبینہ طور پر نواز شریف کا پسندیدہ امیدوار قرار دیا جا رہا ہے اور رمدے کا خاندان بھی برسوں سے نواز شریف کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے وابستہ رہا ہے۔
متعدد تجزیہ کاروں کے مطابق اگر نواز شریف نے نیا آرمی چیف نامزد کیا، تو ان کی کوشش ہو گی کہ وہ فوج سے اس اثر و رسوخ میں سے کم از کم کچھ تو واپس لے لیں، جو اسے 2013ء میں نواز شریف کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک حاصل ہو چکا ہے۔
نواز شریف جو بھی فیصلہ کریں، انہیں بہرحال ایک بہت اہم اور مشکل سوال کا سامنا ہے۔