1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

راشد غنوشی 22 سال بعد تیونس واپس پہنچ گئے

31 جنوری 2011

تیونس میں سابق صدر زین العابین بن علی کے فرار ہونے کے بعد ملک میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک راشد غنوشی کی واپسی بھی ہے۔ تیونس میں ان کی جماعت حركۃ النہضۃ اسلاميہ پر پابندی عائد ہے۔

https://p.dw.com/p/107bA
راشد غنوشی 22 سال بعد تیونس واپس پہنچے ہیںتصویر: picture alliance/dpa

راشد غنوشی جس وقت لندن سے تیونس پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے وہاں ہزاروں افراد موجود تھے۔ غنوشی نے طیارے سے باہر نکلتے ہی ہاتھ بلند کرتے ہوئے’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔

وہ گزشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ہوائی اڈے پر ان کے ہزاروں حامیوں نے انہیں اس خوف سے اپنے گھیرے میں رکھا کہ کہیں پولیس انہیں گرفتار نہ کر لے۔

اس موقع پر بہت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ تاہم دوسری جانب ہوائی اڈے پر درجنوں افراد نے راشد غنوشی کی تیونس واپسی کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ غنوشی کی آمد سے ملک میں اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہو گا۔

حركۃ النہضۃ اسلاميہ کا قیام 1981ء میں ہوا تھا اور فوراً ہی اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس جماعت کو تیونس کی سب سے بڑی اسلامی جماعت کہا جاتا ہے۔ 1989ء میں راشد غنوشی، بن علی کے دور حکومت میں تیونس چھوڑ کر پہلے الجزائر اور پھر وہاں سے برطانیہ چلے گئے تھے۔

Tunesien Proteste
راشد غنوشی کے تیونس پہنچے پر ان کے خلاف مظاہرہ کرنے والے بھی موجود تھےتصویر: AP

تقریباً بائیس سال بعد وطن واپسی پر ان کا کہنا تھا، ’میں صرف اپنے گھر ہی نہیں بلکہ عرب دنیا میں لوٹ رہا ہوں۔‘

لندن کے گیٹ وک ہوائی اڈے پر69 سالہ غنوشی نے مزید کہا کہ اگر تیونس میں عام انتخابات کرائے جاتے ہیں تو ان کی جماعت ان میں حصہ لے گی۔ اس کے علاوہ وہ جلد ہی اپنی سیاسی جماعت کا باقاعدہ طور پر اندارج بھی کروائیں گے۔

تیونس کی عبوری حکومت نے بن علی کے دور میں جلا وطنی اختیار کرنے والے کئی رہنماؤں کو پابندی کے باوجود ملک واپس آنے کی اجازت دی ہے۔ غنوشی کا شمار انتہاپسند افراد میں ہوتا تھا۔ ان کی غیر موجود گی میں انہیں عمر قید کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے، جو قانونی طور پر ابھی تک برقرار ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں