1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رانا پلازہ کے متاثرین تین برس بعد بھی انصاف کے متلاشی

عابد حسین24 اپریل 2016

بنگلہ دیش میں رانا پلازہ سانحے کی تیسری برسی کے موقع پر آج ایک بڑی یادگاری ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین اور حادثے کے متاثرین نے برسی کے موقع پر حکومت سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/1Iben
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

تین برس قبل نو منزلہ رانا پلازہ کے حادثے کا شمار دنیا کے بدترین صنعتی حادثوں میں ہوتا ہے۔ اس نو منزلہ عمارت میں پانچ گارمنٹ فیکڑیاں فعال تھیں، جو بین الاقوامی برانڈز کے لیے کام کرتی تھیں اور اس عمارت کے منہدم ہونے سے گیارہ سو پینتیس مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ آج اِس افسوسناک حادثے کی برسی کے موقع پر ہزاروں مزدوروں نے ایک ریلی میں شرکت کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ حادثے کے مقام پر متاثرین اور سوگواروں نے پھول رکھ کر مرحومین کو یاد کیا۔ ڈھاکا کے نواح میں واقع ساوار میں انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔

ورکرز یونین کے رہنما ابوالحسین نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوسے کہا کہ تین برس گزرنے کے بعد بھی انصاف کی روشنی دکھائی نہیں دے رہی اور حادثے کے ذمہ داران اب بھی آزاد ہیں۔ اِس حادثے میں ملوث ہونے کے شبے میں پولیس نے چالیس افراد کو گرفتار کیا تھا اور اُن میں سے کچھ کو قتل جیسے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ ان گرفتار افراد میں وہ حکومتی اہلکار بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی غلط رپورٹ میں عمارت کو کام کرنے کے قابل قرار دیا تھا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکومتی معائنہ کار نو منزلہ عمارت کے ستونوں میں پڑی بڑی بڑی دراڑیں بھی دیکھ نہیں پائے تھے۔

Bangladesch Dhaka Rana Plaza Gelände 2015
رانا پلازہ کے گرنے کا مقامتصویر: Imago/Xinhua

ریلی میں شریک مزدوروں نے بلڈنگ کے مالک سہیل رانا کو پھانسی دینے کے نعرے بھی لگائے۔ بعض مزدور یونینوں کے مطابق سہیل رانا کو سیاسی رہنماؤں کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ اسی لیے ابھی تک بچا ہوا ہے۔ ریلی میں شریک ایک اور مزدور لیڈر توحید الاسلام نے کہا کہ حکومت کو رانا پلازہ جیسی تمام عمارتوں کو فوری طور پر بند کر دینا چاہیے تاکہ ایک مرتبہ پھر رانا پلازہ جیسا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہو۔ ریلی میں فائر فائٹرز اور امدادی کارکن بھی شریک ہوئے۔ ڈھاکا فائربرگیڈ کے ایک اہلکار منیر حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ تین برس بعد بھی اُسے ملبے تلے دبے افراد کی چیخیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔

حادثے کے متاثرین گزشتہ تین برسوں سے مکمل مالی معاونت بھی حاصل نہیں کر پائے اور یہ بھی انصاف کے نامکمل ہونے کا ایک پہلو ہے۔ نیویار ک برنس اسکول اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی خاتون سارا لیبوٹس نے بنگلہ دیش میں پیش آنے والے اس حادثے سے متعلق ایک خصوصی رپورٹ مرتب کی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے لیبوٹس کا کہنا تھا کہ آتشزدگی سے حفاظت، عمارتوں کا محفوظ ہو نا اور کام کرنے والے مزدوروں کی بہبود و تحفظ ایسے پہلو ہیں جو کلی طور پر نظر انداز ہیں اور اِن فیکٹریوں کے مالکان کے لیے سب کچھ دولت ہے اور ورکرز کے لیے کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید