1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور ایران: کل کے حلیف اب حریف

27 مئی 2010

ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق کل کے حلیفوں میں آج کا اختلاف یقینا ان قوتوں کے لئے باعث اطمینان ہے جو ایران کو اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری کے مشورے دے رہی ہیں۔ اس اختلاف کا اثر روسی ایرانی تجارت پر بھی پڑ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/NY8s
روس اور ایرانی صدور: فائل فوٹوتصویر: AP

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سرکاری ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں روس کی نئی پالیسی پر کڑی تنقیید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب ان ملکوں کا حمایتی ہو گیا ہے جو گزشتہ تین عشروں سے ایران کے دشمن ہیں۔ اس تقریر میں ایرانی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ برازیل اور ترکی کے ساتھ سترہ مئی کو طے پانے والی ڈیل انتہائی معیاری ہے اور مغربی طاقتوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایران مخالف رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔ احمدی نژاد نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر یہ ڈیل کی گئی ہے اور اب کوئی ایسا بہانہ نہیں بچا، جسے مغربی طاقتیں ایران کے خلاف استعمال کر سکیں۔

سترہ مئی کی ڈیل کا روسی صدر دیمتری میدویدیف نے محتاط انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ شاید عالمی برادری کے جملہ خدشات کا احاطہ نہ کر پائے۔ ماسکو اور واشنگٹن نے اس ڈیل پر ابھی تک قدرے سرد رویہ اپنایا ہے، جو ایران کو کھل رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس اور ایران کے درمیان توانائی اور دفاعی شعبوں میں مضبوط تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں، لیکن ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی نئی پابندیوں سے متعلق قرارداد کی روس کی طرف سے حمایت ایرانی حکومت کو کسی بھی طور ہضم نہیں ہو گی۔

Iran Russland Wladimir Putin bei Mahmud Ahmadinedschad in Teheran
ایرانی صدر اور روسی وزیر اعظم ولادی میر پوتین: فائل فوٹوتصویر: AP

صدر احمدی نژاد نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ایرانی عوام روسی صدر میدویدیف کا رویہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایران کو سمجھ نہیں آ رہا کہ اس کا ہمسایہ ملک روس تہران کے ساتھ ہے یا وہ دوسری سمت جا چکا ہے۔ احمدی نژاد نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ آئندہ دنوں میں روس اپنے اس رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں اصلاح کرے گا۔

دوسری جانب روسی اخبارات نے کریملن کے خارجہ امور کے مشیر سیرگئی پریخودکو کے ایک پالیسی بیان کو جلی انداز میں شائع کیا ہے۔ اس بیان میں پریخودکو نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی معاملات سے متعلق عدم پیش بینی، سیاسی انتہاپسندی اور فیصلہ سازی میں غیر شفافیت روس کو کسی بھی طور قبول نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی کے اس روسی مشیر کا مزید کہنا تھا کہ جذباتی سیاست کے ساتھ استحکام مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ پریخودکو نے اس ایرانی تاثر کی بھی نفی کی کہ ایرانی معاملات پر ماسکو اب امریکہ نواز ہوتا جا رہا ہے۔

Iran Russland Wladimir Putin bei Mahmud Ahmadinedschad
روس کے وزیر اعظم ولادی میر پوتین ایران کے سپریم لیڈر خامنائی کے ساتھ، ایرانی صدر بھی موجود ہیں: فائل فوٹوتصویر: AP

روسی اخبارت کے مطابق پریخودکو کا تبصرہ ایرانی صدر کی تقریر کے جواب میں تھا۔ ایران مشرق وسطیٰ میں روس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کا حجم 3.75 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ تازہ صورت حال میں اس باہمی تجارت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ماسکو سے دوری کے بعد ایران خود کو بیجنگ کے زیادہ قریب لانے کی کوشش کرے گا۔ بعض ماہرین کا یہ خیال بھی ہے کہ اس دوری کی ایک وجہ ایران اور روس کے درمیان تیل اور گیس کے تجارتی معاملات پر مسابقتی پالیسیوں کا آغاز بھی ہے۔ دنیا میں گیس کے معلوم ذخائر میں سے 23 فیصد روس کے پاس ہیں جبکہ ایران کے پاس بھی خام تیل اور گیس کے ذخائر اتنے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں تیل کے مجموعی ذخائر کا 11 فیصد اور قدرتی گیس کے جملہ ذخائر کا 16 فیصد بنتے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت:مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں