1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس پر اختلاف کے باجود بھارت جرمن تعلقات میں گرمجوشی

26 اکتوبر 2024

جرمن چانسلر کے دورہ نئی دہلی کے موقع پر مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے ستائیس معاہدوں پر دسخط کیے گئے۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے مستقبل میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4mGP0
Deutschland | Narendra Modi und Olaf Scholz
تصویر: Christian Bruna/Getty Images

روس کے بارے میں مختلف موقف رکھنے کے باوجود جرمنی اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے مابین جمعے کو دوطرفہ تعاون کے متعدد نئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ جرمن چانسلر اولاف شولس کی نئی دہلی میں  موجودگی کے دوران حکومتی سطح پر مشاورت کے دوران قابل تجدید توانائی، تحقیق اور دفاع جیسے شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کے لیے 27 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

شولس نے جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے ہنر مند کارکنوں کی خدمات کے حصول  اور آزاد تجارتی معاہدے پر بھارت کے ساتھ یورپی یونین کے مذاکرات میں مزید تیزی لانے پر زور دیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جرمن زبان میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی حالت کا خلاصہ اس مختصر جملے کے ساتھ کیا ‘‘Alles klar, alles gut’’ جو کہ ''سب اچھا ہے‘‘ کے مترادف ہے۔

شولس کا گزشتہ چار سالوں میں بھارت کا یہ تیسرا دورہ تھا
شولس کا گزشتہ چار سالوں میں بھارت کا یہ تیسرا دورہ تھاتصویر: Marvin Ibo Güngör/Bundesregierung/dpa/picture alliance

دونوں ملکوں کے مابین حکومتی سطح پر مشاورت کے ساتویں دور میں دونوں اطراف کے کئی وزراء نے شرکت کی۔ جرمن حکومت خاص طور پرقریبی یا اہم شراکت داروں کے ساتھ اس طرح کے سربراہی اجلاس منعقد کرتی ہے۔ شولس اپنے تقریباً تین سالہ دور میں تیسری بار بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔

بھارت کے لیے روس کے ساتھ تعلقات میں توازن کا چیلنج

 بھارتی وزیر اعظم  مودی گزشتہ جمعرات کو روس کے دورے سے واپس لوٹے ہیں، جہاں انہوں نے کازان شہر میں برکس سربراہی اجلاس کے دوران ایک بار پھر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو گرمجوشی سے گلے لگایا۔  تام شولس نے نئی دہلی میں اس طرح کی گرمجوشی سے گلے ملنے کا لطف نہیں اٹھایا، اس کے بجائے مودی نے ان سے صرف مصافحہ کیا۔

تاہم جرمن چانسلر کا الفاظ کے معاملے میں گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ مودی نے کہا کہ شولس نے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی  رفتار اور توانائی بخشی  ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے درمیان شراکت داری کو مزید جدید اور مضبوط بنایا جانا چاہیے۔

مودی نے یوکرین میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کی پیش کش کی، یہاں تک کہ یوکرین پر روس کی جنگ کے حوالے سے بھی دونوں فریق اب اختلافات کو ایک موقع کے طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 جرمنی یوکرین کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے اور اسے بھاری مقدار میں ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ دوسری طرف، بھارت اس معاملے میں غیر جانبدار ی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ  اقتصادی اور عسکری طور پر روس سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور نئی دہلی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دیگر ریاستوں کی اکثریت کے برعکس یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی تھی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی برکس اجلاس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بغلگیر ہوتے ہوئے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی برکس اجلاس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بغلگیر ہوتے ہوئے تصویر: Alexander Zemlianichenko/Pool via REUTERS

  تاہم بھارت کے ماسکو اور مغرب کے ساتھ یکساں اچھے تعلقات اب اسے جنگ کے خاتمے کی سفارتی کوششوں میں ثالث بنا سکتے ہیں۔ مودی نے شولس کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا،  ''بھارت نے ہمیشہ یہ موقف برقرار رکھا ہے کہ مسائل کو جنگ کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت امن کی بحالی کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

ایک آزاد تجارتی معاہدہ

  نئی دہلی میں اقتصادی پالیسی کا سب سے اہم موضوع بھارت اور یورپی یونین کے درمیان  ''آزاد تجارتی معاہدے‘‘ پر بات چیت تھی، جو 17 سال پہلے شروع ہوئی تھی لیکن اب تک ناکام رہی ہے۔ شولس نے 2007 میں شروع ہونے والی اس بات چیت کے لیے ''تیزی سے پیش رفت اور تیزی سے نتیجہ اخذ کرنے‘‘ پر زور دیا۔

انہوں نے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''، وزیر اعظم، مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مل کر اس پر کام کریں تو یہ سالوں کے بجائے مہینوں میں ہو سکتا ہے۔‘‘ نئی دہلی میں موجود جرمن  وزیر اقتصادیات روبرٹ ہابیک نے بھی مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''آئیے اب ایک نئی شروعات کریں۔‘‘

ش ر⁄ ا ا (ڈی پی اے)

پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت: بین الاقوامی معیار کے تحت ترقی