1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کے کازان میں برکس سربراہی اجلاس شروع

22 اکتوبر 2024

روس نے برکس اجلاس میں عالمی رہنماؤں کو مدعو کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ نہیں پڑا۔ ادھر یوکرین نے اقوام متحدہ کے سربراہ پر برکس اجلاس میں ان کی ممکنہ شرکت پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

https://p.dw.com/p/4m4n3
برکس اجلاس
برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ جیسے پانچ ممالک کا مخفف ہے، اس گروپ نے سن 2023 کے اپنے سربراہی اجلاس میں مزید ممالک کو بھی گروپ میں شامل کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا تھاتصویر: Maxim Platonov/SNA/IMAGO

روس اپنے معروف شہر کازان میں منگل کے روز سے برکس کے توسیعی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ صدر ولادیمیر پوٹن نے حال ہی میں توسیع شدہ برکس گروپ میں بات چیت کے لیے کئی عالمی رہنماؤں کو کازان مدعو کیا ہے۔ یہ سربراہی کانفرنس تین دن تک جاری رہے گی۔

برکس برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ جیسے پانچ ممالک کا مخفف ہے۔ اس گروپ نے سن 2023 کے اپنے سربراہی اجلاس میں مزید ممالک کو بھی گروپ میں شامل کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ارجینٹینا، ایتھوپیا، مصر، ایران، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی، تاہم ارجنٹائن کے صدر جیویئر میلی نے الیکشن جیتنے کے بعد یہ کہتے ہوئے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا کہ وہ مغربی ممالک کے حامی راستے کو زیادہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

برکس میں پانچ نئے ممالک شامل، مزید توسیع کا اشارہ

کریملن کو امید ہے کہ کازان میں ہونے والی اس میٹنگ سے یہ واضح طور پر عیاں ہو جائے گا کہ یوکرین پر حملے کے سبب روس کی سیاسی تنہائی نیٹو کی سرحدوں سے زیادہ دور تک نہیں پھیل سکی ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی جنوبی افریقہ کے دورے پر

برکس میں گوٹیرش کی ممکنہ شرکت پر یوکرین کی تنقید

یوکرین کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش پر اس بات کے لیے تنقید کی ہے کہ انہوں نے کازان میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کے بارے میں منصوبہ بنایا ہے۔

واضح رہے کہ روس یوکرین جنگ ​​کے خاتمے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے حال ہی میں کییف نے سوئٹزرلینڈ میں سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا تھا، جس میں گوٹیرش شامل نہیں ہوئے تھے۔

یوکرین کی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک آن لائن بیان میں لکھا، "اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے پہلے عالمی امن اجلاس میں یوکرین کی دعوت کو مسترد کر دیا۔"

مودی اور شی جن پنگ سرحدی 'تناو جلد از جلد کم' کرنے پر متفق

ان کا مزید کہنا تھا، "تاہم انہوں نے جنگی مجرم پوٹن کی طرف سے کازان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ یہ ایک غلط انتخاب ہے جو امن کے مقصد کو آگے نہیں بڑھاتا۔ اس سے صرف اقوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔"

تاہم ابھی تک یہ بات پوری طرح سے واضح نہیں ہے کہ آیا گوٹیرش کازان اجلاس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔

برکس میں توسیع کا اعلان، چھ نئے ممالک شامل

صدر پوٹن
پوٹن کو امید ہے کہ کازان میں ہونے والی اس میٹنگ سے یہ واضح طور پر عیاں ہو جائے گا کہ یوکرین پر حملے کے سبب روس کی سیاسی تنہائی نیٹو کی سرحدوں سے زیادہ دور تک نہیں پھیل سکی ہےتصویر: Valery Sharifulin/Sputnik/AP Photo/picture alliance

روسی حکام نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کو بتایا ہے کہ وہ کازان میں موجود ہوں گے۔

لیکن اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرہان حق نے پیر کے روز صحافیوں کو بتایا کہ گوٹیرش کے مستقبل کے سفر کے منصوبے ابھی طے نہیں ہوئے ہیں۔

جون میں سوئٹزرلینڈ میں یوکرین کی "امن سمٹ" میں درجنوں ممالک کے نمائندے شامل تھے، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ روس کو نہ تو دعوت دی گئی اور نہ اس کی طرف سے کوئی شامل ہوا۔ ماسکو نے اس امن سمٹ کو بے معنی قرار دیا تھا۔

برکس میں نئے اراکین کی شمولیت پر اختلافات

مودی روس کے لیے روانہ

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی منگل کی صبح کازان میں برکس سربراہی اجلاس کے لیے روانہ ہو گئے۔

انہوں نے کہا، "بھارت برکس کو بہت اہمیت دیتا ہے اور میں وسیع تر موضوعات پر بات چیت کا منتظر ہوں۔ میں وہاں مختلف رہنماؤں سے ملاقات کا بھی منتظر ہوں۔"

 قدرے ایک طویل پریس ریلیز میں مودی نے اس سال جولائی میں اپنے ماسکو کے دورے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ وہ دو طرفہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

مودی کی طرف سے بیان میں کہا گیا ہے کہ "جولائی 2024 میں ماسکو میں منعقدہ سالانہ چوٹی کانفرنس کی بنیاد پر، میرا دورہ کازان بھارت اور روس کے درمیان خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید تقویت دے گا۔"

مودی نے اگست کے اواخر میں کییف کا بھی دورہ کیا تھا۔

برکس کانفرنس: نگاہیں عالمی جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں پر

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے بھارت نے ماسکو کے ساتھ اقتصادی تعلقات برقرار رکھے ہیں اور مغربی پابندیوں کی وجہ سے دیگر منڈیوں کے بند ہونے کے بعد نئی دہلی نے ماسکو سے رعایت پر مزید روسی تیل خریدنا شروع کر دیا تھا۔

پوٹن کی جنگی مشین کو فنڈ دینے کے الزامات کے باوجود، نئی دہلی نے ماسکو کے ساتھ روایتی "مستحکم اور دوستانہ" تعلقات کا حوالہ دے کر تیل کی خریداری میں اضافے کا جواز پیش کیا۔

بھارت نے یوکرین کی جنگ پر اپنا غیر جانبدارانہ موقف بھی برقرار رکھا ہے اور روسی حملے کی مذمت تک نہیں کی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مغرب میں یوکرین کے اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات میں توازن قائم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

برکس گروپ کے مقاصد کیا ہیں؟