روسی فوجی باغیوں کے شانہ بشانہ، یوکرائن کا دعویٰ
28 اگست 2014یوکرائن کی سکیورٹی اینڈ ڈیفنس کونسل نے کہا ہے کہ باغیوں نے شہر نوووآزوفسک اور ملک کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس علاقے پر کنٹرول کے بعد باغیوں کا بحیرہء آزوف پر قبضہ بھی ممکن ہو گیا ہے۔
قبل ازیں شہر Novoazovsk کے میئر Oleg Sidorkin نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ روس نواز باغی تین روز کی شدید لڑائی کے بعد بدھ کو اس شہر میں داخل ہو گئے۔ اُن کے بقول، ’باغی اپنے درجنوں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ اس شہر میں داخل ہوئے ہیں‘۔
ایک ٹوئٹر پیغام میں کونسل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ "یوکرائن کے جنوب مشرقی علاقوں میں روسی فوج اور علیحدگی پسند یونٹس کی طرف سے ایک جوابی جارحانہ کارروائی جاری ہے"۔
دریں اثناء یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے اپنا ترکی کا مجوزہ دورہ منسوخ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا، "روسی فوج کا قبضہ قائم ہو چُکا ہے"۔ روس ان الزامات کو رَد کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو سرحد پار یوکرائن بھیجتے ہوئے اور باغیوں کو مسلح کرتے ہوئے وہاں مداخلت کر رہا ہے۔
دریں اثناء روسی وزارت دفاع نے Novoazovsk میں روسی ٹینکوں کے داخلے سے متعلق رپورٹوں پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔ روس کے ایک سفارتی ذریعے نے کہا ہے کہ، ’روسی حکام متعدد بار یہ واضح طور پر کہہ چُکے ہیں کہ یوکرائن میں روس کی کوئی ریگولر فورس موجود نہیں ہے اور روس اس مسلح تصادم میں شامل نہیں ہے‘۔
گزشتہ پانچ ماہ سے یوکرائن میں جاری تنازعے میں یہ شدت روس اور یوکرائن کے صدور کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے دو روز بعد دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ بات چیت قریب دو ماہ کے بعد عمل میں آئی ہے۔ اس بات چیت میں طرفین کی جانب سے تنازعے کے حل کے لیے اشتراک اور ایک امن عمل شروع کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
اُدھر یوکرائن کے وزیر اعظم آرسنی ژاٹسینی یوک نے امریکا، یورپی یونین اور جی سیون ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ روسی اثاثوں کو اُس وقت تک کے لیے منجمد کر دیں جب تک روسی فورسز یوکرائن کی سرحدوں سے پیچھے نہیں ہٹ جاتیں۔ جمعرات کو ایک سرکاری میٹنگ کے دوران یوکرائنی وزیر اعظم نے مطالبہ کیا کہ روس کو جلد از جلد یوکرائن کے سرحدی علاقوں سے اپنی فوج، فوجی ساز و سامان اور ایجنٹس کو واپس بلا لینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اُن کی وزارت خزانہ 340 ملین ڈالر مرکزی بینک کو فراہم کرے گی، جس کا مقصد ریزروز کو سہارا دینا اور یوکرائن کی کرنسی کو مستحکم بنانا ہے۔
رواں ہفتے کے دوران یوکرائن میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی جارحیت نے ایک ایسے وقت میں ایک نیا محاذ کھول دیا ہے، جب یوکرائن کی فوج کا کافی حد غلبہ نظر آ رہا ہے اور اُس نے علیحدگی پسند باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں، شہر ڈونیٹسک اور لوہانسک میں باغیوں کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
یوکرائن کے وزیر داخلہ آرسن آواکوف کے ایک ترجمان آنٹون گیراشینکو نے فیس بُک پر شائع کردہ ایک بیان میں کہا، "پوٹن کی ریگولر روسی فوج کی طرف سے یوکرائن کے علاقوں پر قبضہ ایک مستند حقیقت بن چُکی ہے"۔
اُدھر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا ہے کہ اگر یہ بات سچ ثابت ہو گئی کہ روسی فوج یوکرائن کی سرحدوں میں داخل ہو چُکی ہے، تو اس عمل کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔