روہنگیا بحران : سلامتی کونسل کا دورہء میانمار و بنگلہ دیش
27 اپریل 2018میانمار اُس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ملک کی ریاست راکھین میں بسنے والے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف اگست سن 2017 میں ہوئے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے اکثر اس وقت بنگہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔
میانمار کی فوج بلیک لسٹ کی جا سکتی ہے
’روہنگیا بحران کی تفتیش عالمی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں‘
میانمار کے سماجی کارکن کا غصہ، فیس بک متوجہ
آسيان اجلاس: روہنگيا مہاجرين کا بحران زير بحث، حل کوئی نہيں
سکیورٹی کونسل کی جانب سے بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل اس ملک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جاری مسلمانوں کے خلاف تعصب پر منبی رویہ ترک کرے اور ان مہاجرین کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔
اقوام متحدہ کی کونسل کے دورے کا آغاز بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ کاکس بازار سے ہو گا جہاں اقوام متحدہ کے سفیر کیمپوں میں مقیم افراد سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد کویت، برطانیہ اور پیرو سمیت دیگر ممالک کے نمائندوں پر مشتمل سکیورٹی کانسل کا وفد راکھین ریاست کا بھی دورہ کرے گا۔
کویتی سفیر منصور العتیبی کا اس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس کا اصل مقصد میانمار کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس معاملے کو نہایت قریب سے نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کی کوششوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’ سات لاکھ لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔ یہ انسانی المیہ ہے۔‘‘
سلامتی کونسل کے ارکان اس چار روزہ دورے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملاقات کریں گے۔ سوچی کو راکھین کی صورتحال پر خاموشی کے باعث دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ع ف ⁄ ص ح ⁄ اے ایف پی