1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روہنگیا بحران : سلامتی کونسل کا دورہء میانمار و بنگلہ دیش

27 اپریل 2018

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا وفد 28 اپریل کو بنگلہ دیش اور میانمار کا دورہ کر رہا ہے، جہاں وہ روہنگیا بحران کا جائزہ لینے کے بعد مہاجرین کے معاملے پر اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گا۔

https://p.dw.com/p/2wn0p
Myanmar Rakhine Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw

میانمار اُس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ملک کی ریاست راکھین  میں بسنے والے روہنگیا مسلمان اقلیت کے خلاف اگست سن 2017 میں ہوئے فوجی آپریشن کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے اکثر اس وقت بنگہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔

میانمار کی فوج بلیک لسٹ کی جا سکتی ہے

’روہنگیا بحران کی تفتیش عالمی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں‘

میانمار کے سماجی کارکن کا غصہ، فیس بک متوجہ

آسيان اجلاس: روہنگيا مہاجرين کا بحران زير بحث، حل کوئی نہيں

سکیورٹی کونسل کی جانب سے بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل اس ملک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جاری مسلمانوں کے خلاف تعصب پر منبی رویہ ترک کرے اور ان مہاجرین کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔

اقوام متحدہ کی کونسل کے دورے کا آغاز بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ کاکس بازار سے ہو گا جہاں اقوام متحدہ کے سفیر کیمپوں میں مقیم افراد سے ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد کویت، برطانیہ اور پیرو سمیت دیگر ممالک کے نمائندوں پر مشتمل سکیورٹی کانسل کا وفد راکھین ریاست کا بھی دورہ کرے گا۔

USA UN-Sicherheitsrat - Abstimmung gegen Russische Resolution
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا وفد 28 اپریل کو بنگلہ دیش اور میانمار کا دورہ کر رہا ہےتصویر: Reuters/E. Munoz

کویتی سفیر منصور العتیبی کا اس دورے کے حوالے سے کہنا ہے کہ اس کا اصل مقصد میانمار کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی اس معاملے کو نہایت قریب سے نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس مسئلے کے حل کی کوششوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’ سات لاکھ لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔ یہ انسانی المیہ ہے۔‘‘

سلامتی کونسل کے ارکان اس چار روزہ دورے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے بھی ملاقات کریں گے۔ سوچی کو راکھین کی صورتحال پر خاموشی کے باعث دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ع ف ⁄ ص ح ⁄ اے ایف پی