روہنگیا جنگجُووں کا حملہ، مہاجرین کی واپسی میں رکاوٹ ممکن
6 جنوری 2018میانمار کی سکیورٹی فورسز اور ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ بظاہر روہنگیا مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے ایک عسکریت پسند گروپ نے گھات لگا کر ایک فوجی ٹرک حملہ کیا ہے۔ اس حملے میں پانچ فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ فوجی ٹرک پر کیے گئے حملے کی ذمہ داری ’اراکان روہنگیا سالویشن آرمی‘ (ARSA) نے قبول کر لی ہے۔
میانمار فوج کی کارروائی، باغیوں کے کیمپوں پر قبضہ
میانمار کی آزادی کے ستر برس اور روہنگیا مہاجرین کا بحران
بودھ بیوی اور روہنگیا شوہر، زندگی خوف کے سائے میں
بنگلہ دیش میں جنوری سے ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کی واپسی
اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ میانمار کی فوجی نقل و حرکت پر حملے میں اُس کے اراکان شریک تھے۔ ترجمان نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے کی مزید تفصیلات بعد کے بیان میں جاری کی جائیں گی۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس پچیس اگست کو روہنگیا مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے اسی عسکری گروپ نے میانمار کی فوج اور پولیس پر حملے کیے تھے۔ ان حملوں کے بعد شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے خوف سے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ روہنگیا مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ان مہاجرین کو ساحلی شہر کوکس بازار کے قرب جوار میں قائم کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ برس کے اختتام پر میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے درمیان ایک ڈیل بھی طے پائی تھی کہ روہنگیا مہاجرین کو بتدریج واپس میانمار کی ریاست راکھین کے مختلف علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ روہنگیا مسلمانوں سے نسبت ظاہر کرنے والے اس عسکریت پسند گروپ کی تارہ کارروائی سے بنگلہ دیش سے روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ معاہدے کے تحت رواں مہینے کے دوران تقریباً ایک لاکھ مہاجرین کی واپسی ہونا تھی۔
فوج کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والا فوجی ٹرک ایک بیمار شخص کو ہسپتال لے جا رہا تھا۔ میانمار کی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے میں ’بنگالی دہشت گردوں کی تنظیم کے بیس افراد‘ شریک تھے۔ اس بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ حملہ آور ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھے اور وہ اپنا تیار کردہ دھماکا خیر بارودی مواد استعمال کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ نے روہنگیا مہاجرین کے خلاف میانمار کی فوج کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اِسے نسل کشی قرار دیا تھا۔ میانمار کی اکثریتی بودھ آبادی اقوام متحدہ کے اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔