ریباری ایک قدیم خانہ بدوش قبیلہ ہے۔ یہ لوگ ہندو مت کے پیروکار ہیں اور بھگوان شیو کے ماننے والے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، اس قبیلے کا سماجی ڈھانچہ مادرسری ہے، جہاں خواتین کو بالادستی حاصل ہوتی ہے اور ان کی رائے کو بےحد اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ پدرسری نظام کی ضد ہے جہاں تمام اختیارات مرد کے پاس ہوتے ہیں۔
راجستھان یا تھر کی تصاویر میں ریباری سنہری بھوری جلد پر ٹیٹو اور منفرد لباس میں دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ان کے ساتھ ان کے جانور بھی ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ جانوروں، خاص طور پر بھیڑ بکریوں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق گائے کے گوشت کا استعمال ممنوع ہے۔ ریباری خواتین ہاتھ کی کڑھائی کا کام بھی کرتی ہیں، جو ان کے فن کا ایک اہم حصہ ہے۔
ریباریوں کی تاریخ اور ثقافت میں کئی رنگین کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق، ایک بار ایک بادشاہ نے ریباریوں کو اپنی سلطنت میں زمین دینے کی پیشکش کی، لیکن ریباریوں نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ خانہ بدوش ہیں اور کسی مخصوص جگہ پر مستقل قیام نہیں کر سکتے۔ تقسیم ہند کے بعد، ریباری قبیلہ بھی تقسیم ہو گیا۔ زیادہ تر ریباری راجستھان، بھارتی پنجاب اور گجرات میں جا بسے، جبکہ کچھ سندھ میں آ کر آباد ہو گئے۔
تقسیم کے بعد، ریباری قبائل نے خانہ بدوشی ترک کر دی اور تھرپارکر (جو پہلے راجستھان کا حصہ تھا اور اب سندھ کا حصہ ہے)، بدین اور میرپورخاص میں گاؤں بسا لیے۔ گاؤں بسانے سے ان کا مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھا اور ان کی طرز زندگی میں بھی تبدیلیاں آئیں۔
تھرپارکر میں بسنے والے ریباریوں کو ''پارکری ریباری‘‘ کہا جاتا ہے، جبکہ دیگر کو ''سندھی ریباری‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مادرسری سماج میں پروان چڑھنے والے اس قبیلے نے وقت کے ساتھ پدرانہ روایات سے اثر لینا شروع کیا اور یوں سندھی ریباریوں کی خواتین پر پردہ لازم ہو گیا، جبکہ پارکری خواتین اب بھی اپنی معاشی اور سماجی حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ریباری قبیلے کی ایک روایت جو آج بھی قائم ہے وہ یہ کہ وہ اپنے قبیلے سے باہر شادی نہیں کرتے۔ ایک کہانی کے مطابق، جب ریباری قبیلہ راجستھان میں آباد تھا، جیسلمیر کے راجا کو ایک خوبصورت ریباری خاتون سے محبت ہو گئی۔ مگر ریباری قبیلے نے اس شادی کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان کے اصول کے مطابق وہ اپنے قبیلے سے باہر شادی نہیں کرتے، چاہے وہ شخص شاہی خاندان کا ہی کیوں نہ ہو۔
راجا اس انکار پر غضبناک ہوا اور ریباریوں کو جیسلمیر سے فرار ہونا پڑا۔ گجرات کے ریباریوں کے مطابق راستے میں راجا کی فوج نے انہیں پکڑ لیا اور قتل عام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس خاتون نے خود کو راجا کے حوالے کرنے کے بجائے زمین سے دعا کی کہ وہ اسے بچا لے، اور زمین اس کے قدموں تلے کھل گئی اور اسے نگل گئی۔
اس واقعے کے بعد سے کچ کے علاقے میں ہجرت کرنے والی ریباری خواتین سوگ کی علامت کے طور پر سیاہ لباس پہننے لگیں۔ تاہم، پارکری ریباری اس روایت کو ڈوڈو سومرو سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت میں واقع شہر جیسلمیر سے فرار ہونے کے بعد ڈوڈو سومرو نے انہیں پناہ دی، اور جب وہ قتل ہوا تو ریباری خواتین نے اس کے غم میں سیاہ پوشاک پہن لی۔
ریباری کا ''مطلب ہے باہر سے آنے والے‘‘۔ انہوں نے صدیوں پرانی روایات کو نہ صرف سنبھال کر رکھا ہے بلکہ پدرانہ نظام کے دباؤ کے باوجود اپنی منفرد شناخت کو بھی قائم رکھا ہے۔ ان کی کہانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ ثقافت اور روایات کو زندہ رکھنا اور انہیں نسل در نسل منتقل کرنے کے لیے عزم کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، اور یہی عزم ریباریوں کی تاریخی اہمیت اور انفرادیت کو نمایاں کرتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔