USA Kreditwürdigkeit
6 اگست 2011واشنگٹن حکومت نے اس اقدام کو ہدفِ تنقید بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس ریٹنگ ایجنسی سے حساب کتاب میں غلطی ہوئی ہے۔ واشنگٹن سے کلاؤس کاستان نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جمعہ پانچ اگست کو واشنگٹن میں امریکی وزارتِ خزانہ اور نیویارک میں ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کے درمیان ٹیلی فون کالز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ پہلے تو اس ایجنسی کی جانب سے وزیر خزانہ ٹموتھی گائتھنر کو یہ اطلاع دی گئی کہ امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ کو ٹرپل اے سے کم کر کے ڈبل اے پلس کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد وزارت خزانہ میں اُن اعداد و شمار کو ایک بار جانچنے کا عمل شروع کر دیا گیا، جن کی بناء پر ریٹنگ ایجنسی نے یہ قدم اٹھایا تھا۔
جانچ پڑتال کا یہ عمل کامیاب رہا کیونکہ وزارت نے ریٹنگ ایجنسی کے حساب کتاب میں دو ٹرلین ڈالر کی ایک غلطی ڈھونڈ نکالی۔ اگرچہ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کے ذمہ دار عہدیداروں نے اس تصحیح کو قبول کر لیا تاہم بعد میں وزارت کو مطلع کیا گیا کہ اس غلطی کے باوجود امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کا فیصلہ جُوں کا تُوں رہے گا۔
تب امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے بالخصوص اسی حسابی غلطی کو بنیاد بنا کر واضح طور پر یہ کہا کہ امریکہ کی معاشی حالت کے جائزے میں کئی بنیادی غلطیاں موجود ہیں تاہم ریٹنگ ایجنسی کا فیصلہ پھر بھی اٹل رہا۔
اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کے سربراہ جون چیمبرز نے آج ہفتے کو امریکی ٹیلی وژن میں کہا:’’امریکہ میں بنیادی سیاسی حالات بدل گئے ہیں۔ جس غیر ذمہ دارانہ انداز میں ریاستی قرضوں کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے، وہ ناقابل تصور ہے۔‘‘
اپنے اس بیان کے ذریعے چیمبرز نے واضح کر دیا کہ کانگریس میں گزشتہ ہفتوں کے دوران قرضوں کے بحران پر بحث کے شدید انداز اور طور طریقوں نے سیاست پر معیشت کے اعتبار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ریٹنگ ایجنسی نے اس بات کو بھی ہدفِ تنقید بنایا ہے کہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں جن بچتی اقدامات پر اتفاقِ رائے ہوا ہے، وہ کافی نہیں ہیں۔
اس حوالے سے ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کے سربراہ جون چیمبرز نے کہا:’’اگرچہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اگلے دَس برسوں کے اندر اندر 2.1 ٹرلین ڈالر کی بچت کی جائے گی تاہم اس رقم میں مزید اضافہ مشکل نظر آتا ہے جبکہ قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ بچت کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ اس ریٹنگ ایجنسی نے کم از کم چار ٹرلین ڈالر کی بچت نہ ہونے کی صورت میں وسط جولائی میں ہی امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کا انتباہ جاری کر دیا تھا۔ 70 برسوں میں پہلی دفعہ سب سے اچھی کریڈٹ ریٹنگ نہ ملنا امریکہ کے لیے ایک بڑے دھچکے کے مترادف ہے اور دُنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے حوالے سے امریکہ کی ساکھ کو اس سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ صدر باراک اوباما کے لیے سردست تسلی کی بات یہی ہے کہ دیگر دو ریٹنگ ایجنسیوں موڈیز اور فِچ نے ابھی تک امریکہ کو سب سے اچھی کریڈٹ ریٹنگ دے رکھی ہے۔
رپورٹ: کلاؤس کاستان (واشنگٹن) / امجد علی
ادارت: عصمت جبیں