1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریپ کا شکار نیم برہنہ بھارتی بچی مدد مانگنے پر دھتکار دی گئی

جاوید اختر، نئی دہلی
27 ستمبر 2023

ریپ کی شکار بارہ سالہ بچی نیم برہنہ اور خون آلودہ حالت میں لوگوں سے مدد کے لیے گڑگڑاتی رہی لیکن اسے دھتکار دیا گیا۔ اس سماج میں جنسی تشدد کا شکار عورتوں اور بچیوں کے متعلق ایسی بے حسی اب عام ہوتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4WqUP
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق سن 2021 میں مدھیہ پردیش میں عورتوں کے ساتھ ریپ کے سب سے زیادہ 6462  کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق سن 2021 میں مدھیہ پردیش میں عورتوں کے ساتھ ریپ کے سب سے زیادہ 6462  کیسز ریکارڈ کیے گئے۔تصویر: Reuters/

بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں ایک 12سالہ بچی کا ریپ اور اس کے بعد اس کے ساتھ سماج کے رویے نے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے۔ اس افسوس ناک واقعے کی تصویریں سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گئی ہیں۔

یہ واقعہ بی جے پی کی حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش میں مندروں کے شہر اجین سے صرف 12 کلومیٹر دور واقع باڈ نگر روڈ پر پیش آیا۔

نوسالہ بچی مبینہ اجتماعی زیادتی کے بعد قتل اور جلا دی گئی

سی سی ٹی وی کیمرے میں قید فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بارہ سالہ بچی ریپ کے بعد، نیم برہنہ حالت میں،جب کہ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، ایک ایک دروازے پر دستک دے کر لوگوں سے مدد کے لیے گڑگڑاتی رہی۔ لوگ اس پر ایک نگاہ ڈالتے اور مدد دینے سے انکار کردیتے۔ حتی کہ مدد مانگنے پر ایک شخص نے تو اسے دھتکار کر بھگا دیا۔

ایسے واقعات اب عام ہوتے جارہے ہیں اور سماج میں بھی ان کے حوالے سے سرد مہری بڑھتی جا رہی ہے۔

ریپ کے معاملے میں بھارتی سیاست دانوں کی بے حسی؟

 ایک چیتھڑے سے اپنے جسم کو بمشکل ڈھانپتی ہوئی متاثرہ بچی آخر کار ایک آشرم تک پہنچ گئی، جہاں کے پجاری کو اس کے ساتھ جنسی تشدد کیے جانے کا شبہ ہوا۔ اس نے بچی کو ایک تولیہ سے ڈھانپ دیا اور فوری طورپر ضلع ہسپتال لے گیا۔ جہاں طبی معائنے میں اس کے ساتھ ریپ کی تصدیق ہو گئی۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی کو سنگین زخم آئے ہیں اور اسے بہتر علاج کے لیے اندور لے جایا گیا۔

بیشتر خواتین اور ان کے خاندان سماجی بدنامی کے خوف سے جنسی تشدد کے واقعات کو پولیس کے پاس نہیں لے جاتے ہیں
بیشتر خواتین اور ان کے خاندان سماجی بدنامی کے خوف سے جنسی تشدد کے واقعات کو پولیس کے پاس نہیں لے جاتے ہیںتصویر: Reuters/Sivaram V

نامعلوم افراد کے خلاف کیس درج

پولیس نے بتایا کہ بچی کو خون کی ضرورت تھی جو فراہم کردی گئی اور اب اس کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

پولیس نے مزید بتایا کہ بچی سے اس کا نام اور پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ جواب دینے کی حالت میں نہیں تھی۔

اس واقعے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف ریپ کا کیس درج کرلیا گیا ہے۔ اس میں بچوں کو جنسی تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے متعلق خصوصی قانون (پوسکو) کے سخت ضابطے شامل کیے گئے ہیں۔

اجین پولیس کے سربراہ سچن شرما نے بتایا کہ مجرموں کی جلد از جلد شناخت اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

 انہوں نے بتایا کہ طبی معائنے میں ریپ کی تصدیق ہوئی ہے۔ ہم نے خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی ہے اور اس پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اور لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی اطلاع ملے تو پولیس کو فوراً مطلع کریں۔"

متاثرہ بچی کے ساتھ زیادتی کا مقام اور اس کی رہائش گاہ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پولیس سربراہ نے بتایا کہ "ابھی اس کی چھان بین کی جارہی ہے۔ بچی ابھی یہ بتانے کے قابل نہیں ہے کہ وہ کہاں کی رہنے والی ہے لیکن اس کے لہجے سے لگتا ہے کہ اس کا تعلق اترپردیش کے پریاگ راج(سابقہ الہ آباد) سے ہے۔"

خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات

اس ہولناک واقعے نے ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت والی ریاست مدھیہ پردیش میں خواتین کے خلاف تشدد کے افسوس ناک واقعات کی طرف ایک بار پھر سب کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

بھارت میں تین سال میں تیرہ لاکھ سے زائد خواتین لاپتہ

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں سن 2019 اور 2021 کے درمیان خواتین اور لڑکیوں کے لاپتہ ہوجانے کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق سن 2021 میں مدھیہ پردیش میں عورتوں کے ساتھ ریپ کے سب سے زیادہ 6462  کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں سے  50 فیصد سے زیادہ نابالغ بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔ گویا ہر روز 18 خواتین یا بچیوں کا ریپ کیا گیا۔

تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ریپ اور جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر خواتین اور ان کے خاندان سماجی بدنامی کے خوف سے ایسے واقعات کو پولیس کے پاس نہیں لے جاتے ہیں۔