1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریڈیو خلافت: پاکستان، افغانستان میں داعش کا نشریاتی ہتھیار

فرید اللہ خان، پشاور25 دسمبر 2015

افغانستان کے جنوبی علاقوں میں عسکریت پسند تنظیم داعش کی ریڈیو نشریات ہوا کے دوش پر پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی پہنچ رہی ہیں۔ ’ریڈیو خلافت‘ نامی اس ادارے کی روزانہ نشریات ایف ایم فریکوئنسی نوّے پر صاف سنائی دیتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HTdd
Bildergalerie IS in Afghanistan
افغانستان میں ان ریڈیو نشریات کے ذریعے داعش کے جہادی نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں سے باجوڑ اور مومند ایجنسی نامی علاقوں سمیت یہ نشریات صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ تک کے بعض حصوں میں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ریڈیو خلافت کی یہ نشریات شام چھ بجے سے رات آٹھ بجے تک پیش کی جاتی ہیں، جن میں نوجوانوں کو اس گروہ کی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش اور افغانستان اور پاکستان میں فعال عسکریت پسند گروپوں کا ساتھ دینے کی دعوت دی جاتی ہے۔

ان ایف ایم نشریات کے دوران افغانستان کے مختلف صوبوں میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے اہم کمانڈروں کے انٹرویو بھی نشر کیے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ’ریڈیو خلافت‘ اپنی نشریات افغانستان کے صوبے ننگرہار کے دو اضلاع اور صوبے کنڑ سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ریڈیو کا ٹرانسمیٹر سات ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی وجہ سے اس کی نشریات دور دور تک سنائی دیتی ہیں۔

ریڈیو خلافت کے ذریعے داعش نامی شدت پسند گروہ اپنا پیغام افغانستان سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عوام تک بھی پہنچا رہا ہے۔ اس طرح پاکستانی قبائلی علاقوں کے عوام میں ایک بار پھر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا سے متصل یہ سرحدی قبائلی علاقے وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں تاہم ملکی حکومت سال 2002ء میں قائم کردہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یا پیمرا کے قوانین کے دائرہ کار کو ان علاقوں تک وسعت دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسی لیے ماضی میں بھی ان علاقوں میں کئی کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں کے ذریعے اپنا پیغام آسانی سے عوام تک پہنچاتی رہی ہیں۔

پیمرا کے قوانین

اس سلسلے میں فاٹا سیکرٹریٹ کے ترجمان فضل اللہ خان سے جب رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس طرح کی باتیں سکیورٹی اداروں اور فاٹا انتظامیہ کی نوٹس میں ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ جہاں تک قبائلی علاقوں تک پیمرا کے قوانین کو وسعت دینے کی بات ہے، تو اس سلسلے میں ایک سمری تیار کر لی گئی ہے اور جلد ہی فاٹا میں بھی پیمرا کے قوانین نافذ کر دیے جائیں گے۔‘‘

فضل اللہ خان کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان نے بڑی قربانی دے کر امن قائم کیا ہے، لہٰذا ایسی کوئی بھی غلطی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ سکیورٹی ادارے قبائلی علاقوں کے حوالے سے ہر وقت الرٹ رہتے ہیں۔ قیام امن کے لیے عوام کے ساتھ ساتھ ان اداروں نے بھی بڑی قیمت ادا کی ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ لہٰذا خرابی امن کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلی مارکیٹ میں جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی کی وجہ سے ان علاقوں کے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنوں کے لیے اپنی جگہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس کے لیے طاقتور ٹرانسمیٹر اور اونچائی پر ٹاور نصب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر آپ جہاں سے بھی چاہیں، اپنی نشریات شروع کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ریڈیو پیغام رسانی کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔

ریڈیو کی عملی افادیت

اس کی وجوہات کے بارے میں جب ایک مقامی ریڈیو سے وابستہ پروڈیوسر اور سینیئر تجزیہ نگار شمس مومند سے ڈوئچے ویلے نے بات کی، تو ان کا کہنا تھا، ’’دو بنیادی وجوہات قبائلی علاقو‌ں میں ریڈیو کی اہمیت بڑھا دیتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ان علاقوں میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے لوگ اخبار نہیں پڑھ سکتے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں بجلی نہیں ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ، کیبل اور ٹی وی سے لوگ دور ہیں جبکہ ان میں سے بعض علاقوں میں ٹی وی دیکھنا گناہ بھی سمجھا جاتا ہے۔‘‘

Retro Radio & Kopfhörer vor Mint Hintergrund
افغان سرحدی صوبوں اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں ایف ایم ریڈیو مقامی باشندوں تک رسائی کا سب سے مؤثر ذریعہ ہےتصویر: Fotolia

شمس مومند کا مزید کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں 70 فیصد لوگوں کی تفریح اور اطلاعات تک رسائی کا واحد ذریعہ ریڈیو ہے اور ریڈیو پر بات کرنے والوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ان کی باتوں پر سامعین یقین بھی کرتے ہیں۔‘‘

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اعلیٰ پاکستانی حکام کے علاوہ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے بھی اپنے حالیہ دورہ کابل کے دوران افغان صوبے ننگرہار میں داعش کی پناہ گاہوں کا ذکر کیا تھا جبکہ اس سے قبل افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے سربراہ جنرل جان کیمپ بیل نے بھی کہا تھا کہ عسکریت پسند افغانستان کے صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں جمع ہو رہے ہیں۔

آپریشن ضربِ عضب

پاکستانی سکیورٹی فورسز ڈیڑھ سال سے آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران ان کے بیشتر ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ تر قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے اثر و رسوخ میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تاہم نیشنل ایکشن پلان نامی منصوبے پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے عوام کی محرومیوں کے ازالے کے لیے اقدامات کو عملی شکل دینے میں حکومت ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔

ان حالات میں عسکریت پسند ایک مرتبہ پھر حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں ہیں اور قبائلی عوام کو اپنا پیغام پہنچا کر وہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی بات ریڈیو خلافت کی نشریات کو قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے بہت زیادہ تشویش کا باعث بنا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں