1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر مزید ٹیکس نہ لگانے کا اعلان

عبدالستار، اسلام آباد
22 جولائی 2023

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بیان دیا ہے کہ زراعت اور تعمیرات پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ معاشی ماہرین کے خیال میں یہ پالیسی ’جاگیرداروں اور رئیل اسٹیٹ مافیاز کو نوازنے‘ کے مترادف ہے۔

https://p.dw.com/p/4UGf8
Pakistan Bahria Town
رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پاکستان میں بہت طاقتور شکل اختیار کر چکا ہےتصویر: bahriatown.com

معاشی ماہرین کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ملکی وزیر خزانہ کا یہ بیان جاگیرداروں اور رئیل اسٹیٹ مافیاز کو نوازنے کے مترادف ہے، جن کے مضبوط روابط سیاست دانوں اور طاقتور حلقوں کے ساتھ ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ بیان قومی اسمبلی میں ان افواہوں کے ردعمل میں دیا تھا، جن کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ زراعت اور تعمیرات پر نئے ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔

جاگیردار، سیاسی جماعتیں اور ٹیکس 

لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں جاگیرداروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”یہ جاگیردار تقریبا ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور زرعی ٹیکس لگنے نہیں دیتے۔‘‘

قومی خزانے کا ضیاع اور حکومتی پالیسیاں

 قیس اسلم کا کہنا تھا کہ یہ تصور غلط ہے کہ زرعی ٹیکس سے آمدنی نہیں بڑھے گی، ”برصغیر میں مغل اور برطانوی حکومتیں اپنی آمدنی کے لئے بڑی حد تک زرعی ٹیکس پر انحصار کرتی تھیں۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ زرعی ٹیکس کو لگا کر محصولات کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔‘‘

Malik Riaz
ملک ریاض، بحریہ ٹاون کے مالکتصویر: Reuters

تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ کی طاقت

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو بھی بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے اور تعمیرات کے شعبے کے لوگ پاکستانی سیاست پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پاکستان میں ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ شاہد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں رئیل اسٹیٹ بہت طاقتور مافیا ہے، جس میں ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن سمیت بہت سارے تعمیراتی ادارے شامل ہیں۔ طاقت اتنی زیادہ ہے کہ ریاست بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے اور حکومت ان کے سامنے ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔‘‘

پاکستان پر اشرافیہ کا تسلط اور آئی ایم ایف کی سربراہ کا مطالبہ

 لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بہت سارے لوگ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں، اسی لیے حکومت ان پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کسی بھی سیاسی جماعت کا جائزہ لے لیں، اس میں سب سے آگے آگے رئیل اسٹیٹ والے نظر آئیں گے، جو سیاسی جماعتوں کو چندہ دیتے ہیں اور بعد میں اقتدار میں آ کر وہ تعمیرات کے شعبے پہ ٹیکس لگنے نہیں دیتے۔‘‘

حکومت کی حجت ’غیر منطقی‘ ہے

حکومتوں کی طرف سے رئیل اسٹیٹ یا تعمیرات پر ٹیکس نہ لگانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب تعمیرات کی انڈسٹری حرکت میں آتی ہے، تو اس سے دوسری صنعتوں کو فائدہ ہوتا ہے، جس سے معاشی گروتھ بڑھتی ہے۔ تاہم شاہد محمود اس دلیل کو غلط قرار دیتے ہیں،” صرف تعمیرات کا معاملہ نہیں ہے، ہر صنعت مختلف صنعتوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، تو اس دلیل کی بنیاد پر دوسری صنعتوں پر بھی ٹیکس لگنا نہیں چاہیے۔‘‘

Pakistan Bahria Town
رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پاکستان میں بہت طاقتور شکل اختیار کر چکا ہےتصویر: bahriatown.com

شاہد محمود کے مطابق ساری حکومتوں نے ہمیشہ تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس ایمنسٹی دی ہے، ''اس سے معاشی گروتھ تو نہیں بڑھی ہاں کالا دھن سفید ضرور ہوا ہے۔‘‘

حکومتی ذرائع آمدن بڑھائے جا سکتے ہیں

معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان ویسے ہی ایک بہت خطرناک معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے، ایسے میں رئیل اسٹیٹ یا تعمیرات کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے سے ملک کے وسائل مزید کم ہوں گے۔

 اکرام الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دو ہزار کثیر القومی کمپنیاں اور سرکاری ادارے ٹیکس دیتے ہیں جبکہ سرمایہ داروں کی ایک بڑی تعداد صحیح معنوں میں ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ 

شاہد محمود کے مطابق رئیل اسٹیٹ میں روزانہ کروڑوں یا بعض اوقات اربوں کا کام ہوتا ہے، ”لیکن یہ سارا کاروبار انڈر دی ٹیبل ہوتا ہے اور اس میں بہت ساری بے ایمانی ہوتی ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ کے لیے کالے دھن کو سفید کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے۔ اگر چھوٹ نہ دی جائے اور اس پر صحیح معنوں میں ٹیکس لگایا جائے تو پاکستان کے ریوینیو میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘