پابندیوں کے باوجود جہادی تنظیمیں متاثرہ علاقوں میں فعال کیسے
30 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جماعت الدعوة کے قریب دو ہزار رضاکار پیر کے روز ہی سے ان علاقوں میں پہنچ چکے تھے جو حالیہ زلزلے کا شکار ہوئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تنظیم کتنے منظم انداز میں کام کرتی ہے۔
مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم افواج پاکستان کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ریاستی سطح پر سب سے زیادہ امدادی کام فوج ہی کر رہی ہے۔ تاہم کیا یہ حیرت انگیز امر نہیں کہ ریاستی ادارے اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے اس خدشے سے واقف نہیں کہ جماعت الدعوة دراصل کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ ہی کا ایک نیا روپ ہے؟ لشکر طیبہ، جس پر سن دو ہزار آٹھ میں بھارتی شہر ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا الزام ہے، اور جو پاکستان میں بھی مسلح کارروائیاں کرتی رہی تھی۔
روئٹرز کے مطابق جماعت الدعوة کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی کھلی چھوٹ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔ ساتھ ہی یہ حکومت کی اس دوغلی پالیسی کی بھی عکاسی کرتی ہے جس کے ذریعے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر ملک میں گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور انہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔
اس خبر رساں ادارے کے مطابق یہ صورت حال اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ پاکستانی حکومت ملک میں سرگرم بھارت مخالف تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے سے مستقل اجتناب کرتی رہی ہے۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان غیر ریاستی عناصر کو بھارت میں شورش برپا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا کہ کالعدم تنظیموں کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں میں حصہ لینے نہیں دیا جائے گا۔
تاہم متاثرین کو اس بات سے دلچسپی نہیں کہ مدد کہاں سے آ رہی ہے۔ پچاس سالہ نجیب عالم نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دیر میں واقع ان کے پہاڑی علاقے ریحان کوٹ میں صرف جماعت الدعوة ہی امدادی کام کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’صرف جماعت الدعوة ہی ہماری مدد کر رہی ہے۔ امریکا، یا وہ جو انسانیت کا درس دیتے ہیں، کو چاہیے کہ وہ بھی یہاں آئیں اور ہمارے لیے کچھ کریں۔‘‘
روئٹرز کے مطابق لاہور میں اس تنظیم کے کارکن محمد زبیر نے زلزلہ آنے کے بعد صرف تین گھنٹوں میں امدادی کاموں کے لیے دس ہزار ڈالر تک کی رقم جمع کر لی تھی۔
جماعت الدعوة کہتی ہے کہ اس پر الزامات بے بنیاد ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اس پر پابندیاں لگا چکی ہے تاہم اس کا دہشت گردی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔