باعزت شہری کی تعریف ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ وہ اربوں کھربوں کی جائیداد کا مالک ہو، جسے لوگ جانتے اور مانتے ہوں۔ اور اس کے خیالات کو اہمیت دیتے ہوں۔ ایسا شخص کسی کمپنی کا سی ای او بھی ہوسکتا ہے یا پھر کسی بزنس ایمپائر کا مالک بھی۔ پھرپور زندگی جیتا یہ شخص ایک دن اچانک اپنے 2 بلین ڈالر کے بڑے سے گھر میں سینے پر بندوق کی گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے۔
لیکن کیوں؟ آخر ہم بھی تو ایسی ہی زندگی کے خواب دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی ڈھیر ساری دولت ہو، بڑا سا گھر ہو، لوگ ہماری باتوں کو اہمیت دیتے ہوں۔ ہم سوچتے ہیں کہ پیسہ اور شہرت مل جائے تو ہماری زندگی کے تمام مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ری-جین ہوئی اُس شخص کا نام ہے کہ جس کے پاس تو یہ سب موجود تھا لیکن پھر بھی اس نے موت کو گلے لگانا بہتر سمجھا یعنی ایسی زندگی جس کا ایک عام آدمی خواب دیکھتا ہے اور پھر یہ سب پا لینے کے بعد بھی وہ انسان خود کو کامیاب یا خوش محسوس نہیں کرتا تو پھر زندگی میں اور کیا چاہیے؟
ایک عام تاثر یہی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی میں ناکام ہوتے ہیں یا جنہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صرف وہ ہی خود کشی کیا کرتے ہیں۔ بھلا ایک کامیاب، پیسے والے شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیسے سے کچھ بھی خریدا جا سکتا ہے لیکن خوشی نہیں۔ اگر کامیابی، پیسہ، شہرت اور ذہانت بھی انسان کو خوشی اور سکون نہیں دے سکتے تو پھر آخر کیا چیز ہے، جو اسے سکون دیتی ہے؟ اور وہ کیا عناصر ہیں جو اسے موت کی طرف لے جاتے ہیں؟
چند ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل میں وہ لوگ جو اپنی زندگی میں شاندار کامیابیاں حاصل کر چکے ہوتے ہیں ان پر ان کامیابیوں کا بوجھ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ وہ مسلسل ان کامیابیوں کے خواب دیکھتے رہے ہوتے ہیں جو کہ غیر حقیقی ہوتی ہیں اور یہ لوگ مسلسل ایسے ہی غیر حقیقی معیارات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کا ماننا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ہر آدمی ان کے معیار پر پورا اترے۔
لیکن ایسا ہونا غیر فطری ہے۔ یہ لوگ کامیابی تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن وہ اپنے اعصاب کو تھکا چکے ہوتے ہیں۔ بہرحال خودکشی کے اور بھی بےشمار محرکات ہیں جیسا کہ اپنی زندگی کا زیادہ وقت سٹریس یا زہنی دباؤ میں گزارنا، زندگی میں یکے بعد دیگرے نقصانات کا سامنا کرنا، جذباتی ہیجان میں مبتلا رہنا، طبی مسائل وغیرہ۔
یہ عین ممکن ہے کہ ان سب مشکلات کے ساتھ بھی کوئی انسان کامیاب ہو جائے۔ لیکن جب تک ان مسائل کا حل نہ نکالا جائے، صرف کامیابی کے سہارے ہی زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ مثال کے طور پر ننھا اور وحید مراد پاکستان کے دو انہتائی کامیاب اور بےانتہا مشہور اداکارتھے۔ دونوں نے شہرت کی بلندی پر ہوتے ہوئے خودکشی کی۔
کہا جاتا ہے کہ ان دونوں اداکاروں کو اپنے آخری دنوں میں کیرئیر کے حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا تھا۔ یقیناً یہ ان کی زندگی کا کوئی پہلا پریشان کن دور نہیں ہوگا۔ یوں تو زندگی میں پریشانیاں اور مسائل آتے ہی رہتے ہیں، لیکن چونکہ یہ لوگ پرفیکشنسٹ بن چکے ہوتے ہیں اور اس سے کم پر ان کا دل مطمئن ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں ناکامی کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی کم ہو چکی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر اوقات خود کشی اکیلے پن کا بھی شاخسانہ ہوتی ہے۔
شہرت اور پیسہ ان کی زندگی کو کچھ یوں بدل دیتا ہے کہ ان کے مسائل ایک عام آدمی کے مسائل سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ یہ احساس کہ کوئی ان کے مسائل کو سمجھ نہیں پا رہا، ان کی تنہائی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے پھر یہ لوگ نشہ آور اشیاء کے بےدریغ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ اپنی سوچوں سے فرار حاصل کر سکیں۔
ایسے لوگوں کی زندگی میں بظاہر تو اردگرد دوستوں کا ہجوم موجود ہوتا ہے، لیکن ان کا سپورٹ سسٹم انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ ان کے نام نہاد دوست مشکل اور نازک حالات میں ان کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ اس تمام صورت حال کے ساتھ ساتھ اگر کوئی ذہنی بیماری بھی ہو تو مسائل مزید پیچیدہ شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک اور قباحت یہ بھی ہے کہ یہ کامیاب افراد ہر وقت لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ یوں دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنے رہنا بذات خود ذہنی دباؤ میں اضافہ کر دیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا تحقیقی جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ خاص طور پر وہ ممالک جنہیں ترقی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، جہاں لوگ ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں کے معاشرے خوشی کے انڈیکس پر بھی آگے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں خودکشیوں کی شرح زیادہ ہے۔
اس فہرست میں لیتھونیا، ساؤتھ کوریا اور امریکہ تک بھی شروع کے ان پچاس ممالک میں شامل ہیں، جہاں خودکشیوں کی شرح زیادہ ہے اور وہ ممالک جہاں انسانی معیار زندگی یعنی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بہت نیچے ہے، وہاں خودکشی کی شرح بہت کم ہے۔ اس لیے اگر آپ کے پاس ایک اچھا سپورٹ سسٹم موجود ہے ایسے دوست موجود ہیں جو آپ کا سچے دل سے ساتھ دیتے ہیں۔ آپ کے سوشل میڈیا پروفائل پر انٹرنیشنل میڈیا ہر وقت نظر رکھے ہوئے نہیں ہے تو آپ خوش قسمت ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔