زیادہ گوشت خوری سے جسم میں یورک ایسڈ زیادہ
21 جون 2024پاکستان میں مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ نچلے متوسط طبقے اور خاص طور پر غریب شہریوں کو خرید کر گوشت پکانے اور کھانے کا موقع بہت ہی کم ملتا ہے۔ لیکن عید الاضحیٰ کے موقع پر اور اس کے بعد کے چند دنوں میں جب قربانی کے جانوروں کا گوشت بہت زیادہ کھایا جاتا ہے تو بہت سے شہری کئی طرح کے طبی مسائل کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
تلی ہوئی غذا: معمرخواتین کے لیے فالج کے خطرات زیادہ
بکرے یا گائے کے گوشت سے بنائے گئے پکوان عموماﹰ جتنے لذیذ ہوتے ہیں، اتنے ہی مرغن بھی۔ زیادہ چکنائی والی خوراک اور مسلسل زیادہ گوشت کھانا انسانی جسم میں کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کی سطح میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے عید الاضحیٰ کے بعد سے لے کر نئے اسلامی سال کے آغاز تک کے تقریباﹰ تین ہفتوں میں پاکستان میں مختلف طبی شکایات کی وجہ سے ڈاکٹروں کے کلینکس اور ہسپتالوں کا رخ کرنے والے عام شہریوں کی تعداد معمول سے زیادہ رہتی ہے۔
ایسے مریضوں کو زیادہ تر بد ہضمی، معدے میں جلن، نظام ہضم کی دیگر شکایات حتیٰ کہ فوڈ پوائزننگ، خون میں کولیسٹرول کی سطح بہت بڑھ جانے یا پھر جسم میں یورک ایسڈ کا تناسب بہت زیادہ ہو جانے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ خون میں کولیسٹرول کی سطح بہت زیادہ ہو جائے تو ہارٹ اٹیک سمیت دل کی مختلف بیماریوں کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی گردے جسم میں موجود یورک ایسڈ کی سطح کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں، لیکن یہ سطح بھی بہت اونچی ہو جائے تو ہڈیوں کے جوڑوں کو متاثر کرنے لگتی ہے اور جوڑوں میں شدید درد بھی ہونے لگتا ہے۔
اکثر غیر صحت بخش غذائی عادات کی وجہ سے ہی سہی، لیکن اگر خون میں یورک ایسڈ کی سطح کافی زیادہ ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا طبی ماہرین کے پاس واضح جواب تو ہوتا ہے، لیکن یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ اگر کسی انسان کے جسم میں یورک ایسڈ کی شرح کافی زیادہ ہو اور اسے اس مسئلے کا علم نہ ہو یا اس پر توجہ نہ دی جائے تو نتائج کیا ہوتے ہیں؟
راولپنڈی کے ایک نجی اسکول میں پرنسپل کے فرائض انجام دینے والی بیالیس سالہ نسیم انجم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کئی سال پہلے انہیں خون میں یورک ایسڈ کی سطح بہت زیادہ رہنے کا مسئلہ پیش آیا، مگر انہوں نے اسے کوئی سنجیدہ طبی شکایت نہ سمجھا۔ نسیم انجم نے بتایا، ''میرے جسم میں اکثر درد رہتا تھا اور میں درد کم کرنے والی دوائیں لے لیتی تھی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے گٹھیا کی بیماری ہو گئی۔ اس دوران میرے گردے بھی متاثر ہونا شروع ہوئے تو خراب ہوتے چلے گئے۔ آج میں سوچتی ہوں کہ کوئی ایسا طبی مسئلہ جسے ہم معمولی سمجھتے ہیں، توجہ نہ دینے پر کتنے تکلیف دہ نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ پھر جب انسان ایسے کسی عارضے کی سنجیدگی کو جان لیتا ہے، تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘
کئی برس پہلے فیصل آباد سے اسلام آباد منتقل ہونے والی گھریلو خاتون نور آمنہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں خون میں یورک ایسڈ کی سطح اونچی رہنے کا مسئلہ درپیش ہے، جو ہر سال عیدالاضحیٰ کے بعد کے دنوں میں بڑھ جاتا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اس مرض کا تعلق غذائی عادات سے ہے۔
نور آمنہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا، ''مجھے یہ مرض وراثت میں ملا ہے۔ میری والدہ کو بھی یورک ایسڈ کی سطح زیادہ رہنے کی شکایت تھی۔ ہمارے خاندان کی خوش خوراکی مشہور تھی۔ گوشت، مچھلی اور مرغن غذائیں کھانا اور کھلانا جیسے ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ پھر اسی طرز زندگی کے باعث میں بھی معدے میں مسلسل جلن اور کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کی سطح اونچی رہنے کا شکار ہو گئی۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ سادہ، کم چکنائی والی غذا اور ورزش کو اپنا روز کا معمول بنائیں۔ انسان اپنی طرف سے کوشش بھی کرتا ہے۔ لیکن ایسا کوئی معمول بنانا اور اس پر پوری طرح عمل کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگوں کا اپنی عادات نہ بدلنا بھی تو مزید خرابی کی وجہ بنتا ہے۔‘‘
لیکن پختہ ارادے کے مالک کئی مریض اپنی عادات بدل کر ایسے طبی مسائل پر کافی حد تک قابو پا بھی لیتے ہیں۔ پاکستانی دارالحکومت کے سیکٹر ایف سیون میں اپنا کپڑے کا کاروبار کرنے والے فیصل شہزاد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''مجھے ایڑیوں میں درد رہنا شروع ہوا تو پھر بڑھتا ہی گیا۔ میرے لیے چلنا پھرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیسٹ کروائے تو پتا چلا کہ یورک ایسڈ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ تب میں نے کافی عرصہ علاج کروایا، اپنی غذائی عادات بھی بدلیں، کئی اشیائے خوراک سے سختی سے پرہیز کیا اور پیدل چلنے کی عادت بھی اپنا لی۔ شکر ہے کہ اب بہت بہتری آ چکی ہے۔‘‘
کیا زیادہ گوشت کھانا واقعی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز کے شعبہ امراض گردہ کے ماہر ڈاکٹر وقار چوہدری سے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ عید الاضحیٰ کے مذہبی تہوار کے بعد ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کی آمد بڑھ جاتی ہے، جنہیں بد ہضمی اور معدے میں جلن سمیت نظام ہضم کی مختلف شکایات، یورک ایسڈ کی زیادتی اور گردوں کی سوزش جیسے امراض کا سامنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وقار چوہدری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یورک ایسڈ ہے کیا؟ یورک ایسڈ جسم میں پیدا ہونے والے ایسے کرسٹل نما تیزابی مادے ہوتے ہیں، جن میں مسلسل اضافہ جسم میں چربی بڑھاتا ہے اور جن کی مستقل اونچی سطح جوڑوں کے درد کا سبب بنتی ہے۔ یورک ایسڈ اس وقت بنتا ہے جب جسم میں پیورین نامی کیمیکل مادہ تحلیل ہوتا ہے اور خون کے ذریعے گردوں تک پہنچ کر پیشاب کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ویسے تو گردوں کا کام جسم سے یورک ایسڈ کو ختم کرنا ہوتا ہے، لیکن ہماری غذا میں ایسی اشیاء شامل ہوتی ہیں، جن میں پیورین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یورک ایسڈ ختم ہونے کے بجائے جسم میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جو خوراک پیورین کی زیادہ مقدار کا باعث بنتی ہے، اس میں سرخ گوشت، مچھلی اور دالوں وغیرہ سے بنائے گئے کھانے نمایاں ہیں۔
ڈاکٹر چوہدری نے زیادہ یورک ایسڈ کی طبی علامات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ''ان علامات میں سرفہرست جوڑوں میں اور پاؤں کے انگوٹھے میں کھچاؤ، درد اور سوزش ہیں۔ یہ مرض موروثی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک صحت مند بالغ مرد کے خون میں یورک ایسڈ کی عمومی سطح 4.0 سے 8.5 ملی گرام فی ڈیسی لٹر ہوتی ہے۔ بالغ خواتین میں یورک ایسڈ کی عام سطح 2.7 سے 7.3 ملی گرام فی ڈیسی لٹر ہوتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہر دسواں شہری گردوں کی بیماری کا شکار ہے۔ ایسے مریضوں میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے جسم میں یورک ایسڈ زیادہ نہ ہو۔‘‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز کے اس ماہر امراض گردہ نے زور دے کر کہا کہ یورک ایسڈ کی زیادتی کے مریضوں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ سرخ گوشت اور دالیں کم کھائیں، اپنی غذا سادہ رکھیں، پانی زیادہ پیئں اور روزانہ ورزش کو اپنا معمول بنا لیں، ''صرف اتنا کرنے سے بھی بہت بہتری آ جاتی ہے۔‘‘