سائبر قوانین کے تحت قید ادیب ہلاک، ڈھاکا میں طلبا کا احتجاج
1 مارچ 2021پیر کو قریب تین سو طلبہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں مشتاق احمد کی موت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ریلی میں حکومت کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مظاہرین ملک کے سائیبر سکیورٹی قوانین کے خاتمے کے لیے نعرے لگارہے رہے۔
مشتعل طلبہ نے یونیورسٹی کیمپس سے نکل کر وزارتِ داخلہ کی عمارت کی جانب بڑھنے کی کوشش کی لیکن پولیس کے دستوں نے انہیں آگے جانے سے روک دیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق بنگلادیش کے سائیبر قانون نے ملک میں آزادئ اظہار کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا ہے۔
بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کے لئے وراثت کے حقوق
مشتاق احمد کی موت
مشتاق احمد اپنے ملک کے معروف ادیب اور سیاسی مبصر تھے۔ وہ گزشتہ برس سے جیل میں قید تھے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف تنقیدی تبصرے تھے۔ اس دوران عدالت نے ان کی ضمانت کی چھ درخواستیں مسترد کیں۔
حکام کے مطابق ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہے کہ ان کی موت قدرتی تھی لیکن مظاہرین کا الزام ہے کہ جیل میں ان پر تشدد کیا گیا اور ان کی موت کی ذمہ دار حکومت ہے۔
سیاسی کارٹونسٹ پر تشدد
بنگلادیش میں مشتاق احمد کے علاوہ دس دوسرے افراد کو بھی گزشتہ برس ڈجیٹل سکیورٹی قوانین کے تحت جیلوں میں ڈالا گیا۔ ممتاز کارٹونسٹ کبیر کشور بھی ان میں شامل ہیں۔ کشور کے وکلاء کا کہنا ہے دوران حراست ان کے مؤکل پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش: پانچ انتہا پسندوں کو موت کی سزا
ڈجیٹل سکیورٹی قوانین
بنگلہ دیش نے 2018 میں ڈیجیٹل سکیورٹی سے متعلق سخت قوانین کا نفاذ کیا۔ اس میں حکومت کے خلاف پراپیگنڈا یا سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو چودہ برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت بنگلادیش کی جنگ آزادی، ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن اور قومی ترانے پر بھی تنقید کی ممانعت ہے۔ ملک میں بد امنی پھیلانے یا نظام کو درہم برہم کرنے کی باتیں کرنے والوں کو دس سال کی قید سنائی جا سکتی ہے۔
عورت نکاح کا اندراج بھی نہیں کر سکتی، بنگلہ دیشی ہائی کورٹ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور صحافتی اداروں نے اس قانون کو اظہار آزادی اور جمہوری اقدار کے برخلاف قرار دیا ہے اور ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اسے واپس لے۔
اے پی (ع ح، ش ج)