عورت نکاح کا اندراج بھی نہیں کر سکتی، بنگلہ دیشی ہائی کورٹ
14 جنوری 2021بنگلہ دیش میں اِس عدالتی فیصلے پر خواتین اور ان کے حقوق کے سرگرم کارکنوں میں غم و غصے کے ساتھ ساتھ بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ بعض حلقے عدالتی توجیہ کو حیران کن بھی قرار دے رہے ہیں۔رات نو بجے کے بعد پکڑے جانے والے لو برڈز کی سزا، فوری نکاح
ہائی کورٹ کا فیصلہ
بنگلہ دیشی ہائی کورٹ نے ایک نکاح رجسڑار خاتون کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا کہ مذہبِ اسلام میں شادی ایک مقدس فریضہ خیال کیا جاتا ہے اور کوئی خاتون نکاح کا اندراج کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کو ماہانہ ماہواری کا سامنا ہوتا ہے۔
عدالتی جج نے یہ بھی کہا کہ دورانِ حیض کوئی عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی لہذا وہ اس کام کو کرنے کی بھی اہل نہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کوئی بھی نوجوان لڑکی یا عورت ماہواری کے ایام میں نماز یا روزہ بھی نہیں رکھ سکتی۔
مسلم ملکوں میں کسی بھی شادی میں نکاح پڑھانے کا فریضہ مرد کے سپرد ہے اور اس کا حکومتی کھاتے میں باضابطہ اندراج ہونا بھی لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔
نکاح خوان صرف مرد ہی ہو سکتا ہے
سن 2014 میں بنگلہ دیشی ضلع دیناج پور میں تین خواتین کو بطور نکاح رجسڑار مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی اس تقرری کو وزارتِ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور نے انہی بنیاد پر منسوخ قرار دیا تھا، جو عدالتی فیصلے میں بیان کی گئی ہیں۔ ملکی وزارتِ قانون کے فیصلے کے خلاف اپیل ایک خاتون عائشہ صدیقہ نے دائر کر دی۔ وہ ان تین خواتین میں سے ایک تھیں،جنہیں نکاح خوان کی تقرری کا پروانہ دیا گیا تھا۔ ان کی اپیل انجام کار عدالت نے مسترد کر دی۔
یہ ناقابلِ قبول ہے
عدالتی فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک جسمانی معاملے کی بنیاد پر کسی عورت کو نکاح پڑھانے یا اس کا اندراج کرنے سے محروم کرنا کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں،'' ایک خاتون ملک کی وزیر اعظم بن کر نظم نسق چلا سکتی ہے، جہاز اڑا سکتی ہے لیکن وہ نکاح کا اندراج نہیں کر سکتی۔ خاتون نے عدالتی فیصلے میں پیش کردہ توجیہ کو ایک حیران کن منطق بھی قرار دیا۔‘‘
عائشہ صدیقہ نے عدالتی عُذر تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دستور کی منافی ہے۔
’فیصلہ دستور کے منافی ہے‘
عائشہ صدیقہ کی وکیل فوزیہ کریم نے بھی عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت ایک مرد یا عورت نکاح کا اندراج کر سکتی ہے اور ایسا ہی طلاق کے لیے بھی ہے اور اس میں مذہب کا بظاہر کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت جاتیا سماجتانترک دَل نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو دستور کے منافی قرار دیا ہے۔
کرونا وائرس: خاموشی کے ساتھ نکاح کر کے دلہنوں کی رخصتی
جاتیا سماجتانترک دَل کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست کے پاس امتیازی قانون بنانے کا اختیار نہیں۔ اسی طرح مختلف سول سوسائٹی کے اکیس سرگرم کارکنوں نے ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس فیصلے نے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ان کارکنوں نے واضح کیا کہ بنگلہ دیشی دستور مرد اور عورت کے مساوی حقوق کا ضامن ہے۔
زبیر احمد (ع ح، ع ا)