’ساری دنیا جولیان اسانج کی تلاش میں‘
3 دسمبر 2010برطانیہ میں اسانج کے وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس کو اس بات کا علم ہے کہ جولیان اسانج برطانیہ میں کس مقام پر روپوش ہیں۔ لیکن ان کی گرفتاری اس وجہ سے ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ ان کے لئے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری صیح نہیں تھے۔ جولیان اسانج کے خلاف ریڈ نوٹس جاری ہونے کے بعد ان کی ماں کرسٹین اسانج نے سخت پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ بہت بُرا ہو گیا ہے، وہ قوتیں جن کے خلاف اسانج کھڑا ہوا ہے بہت بڑی ہیں۔
اس سے قبل سٹاک ہوم کی سپریم کورٹ نے جولیان کی طرف سے دائر کی گئی گرفتاری کے حکم کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔ جولیان کے خلاف یہ الزام ہے کہ وہ اگست کے مہینے میں سویڈن میں جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اسانج ان الزامات سے انکار کرتے آرہے ہیں۔
سابق امریکی نائب صدارتی امیدوار سارہ پیلن نے کہا کہ وکی لیکس ٹیم کے ساتھ دہشت گرد تنظیم کی طرح برتاؤ کرنا چاہئے۔ وکی لیکس ویب سائٹ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اسانج کی زندگی کو خطرہ ہے۔
اسانج کے خلاف یہ قانونی کارروائی اس وقت ہو رہی جب ان کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی ہے۔
دوسری جانب وکی لیکس ویب سائٹ کو بند یا ہیک کرنے کے لیے سائبرحملے مسلسل جاری ہیں۔ وکی لیکس ویب سائٹ جمعہ کے روز 6 گھنٹے تک بند رہنے کے بعد نئے ایڈریس وکی لیکس ڈاٹ سی ایچ کے ساتھ دوبارہ آن لائن آگئی ہے۔ وکی لیکس ویب سائٹ کو ایک ہفتے کے دوران 3 مرتبہ ہیک کیا گیا ہے۔
اس سے قبل وکی لیکس کی طرف سے اطلاع دی گئی تھی کہ اس کا ڈومین نام وکی لیکس ڈاٹ اوآرجی فراہم کرنے والی امریکی کمپنی نے اسے ختم کردیا ہے۔
یاد رہے کہ وکی لیکس کا نہ تو کوئی باقاعدہ دفتر ہے اور نہ مستقل ملازمین۔ اس ویب سائٹ کے ساتھ کام کرنے والے رضاکاروں نے بتایا ہے کہ اسانج کی کوشش ہے کہ ویب سائٹ سے متعلق تمام تر حقائق کو چھپا کر رکھا جائے تاکہ اس کے آپریشنز کو بند نہ کیا جا سکے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس ویب سائٹ کے عارضی دفتر مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وکی لیکس کے کُل بیس ’مین سرورز‘ ہیں، جو دنیا کے مختلف خطوں میں قائم کئے گئے ہیں جبکہ اس کے سو سے زائد ویب ایڈریس ہیں۔
رپورٹ : امتیاز احمد
ادارت : شادی خان سیف