1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سب تفصیلات موجود ہیں، قصور صرف بھارت کا،‘ چین کا اصرار

20 جون 2020

گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئی بھی پوسٹ یا علاقہ چین کے حوالے نہیں کیا گیا لیکن چینی حکومت کا بیان اس سے بالکل مختلف حقیقت بیان کرتا ہے۔ کیا بھارت پس پردہ گلوان کی وادی چین کو ’سونپ‘ چکا ہے؟

https://p.dw.com/p/3e56k
Indischer Grenzsoldat an der Grenze zu China
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustfa

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وادی گلوان سے متعلق وضاحت کریں کہ وہ اس وقت کس کے کنٹرول میں ہے؟ گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کوئی علاقہ یا فوجی پوسٹ چین کے حوالے نہیں کیے گئے۔ وزیر اعظم مودی کے اس خطاب کے بعد چینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پوری وادی گلوان وادی چین کے دائرہ اختیار میں ہے۔

بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان کا کہنا تھا، ''گلوان کی وادی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ چینی علاقے کے اندر واقع ہے۔ چینی سرحدی فورسز گزشتہ کئی  برسوں سے وہاں گشت کر رہی ہیں۔‘‘ ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''پوری وادی گلوان ہماری ہے۔‘‘

شیو سینا کا مطالبہ

اس چینی بیان پر بھارت کی ہندو قوم پرست جماعتیں شدید غم و غصے میں ہیں۔ بھارت کی شدت پسند ہندو تنظیم شیوسینا کی ڈپٹی لیڈر پریانکا وکرم نے ملکی قیادت سے اس حوالے سے وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔  ان کا کہنا تھا، ''مرکزی حکومت اس چینی بیان کی وضاحت کرے۔ کیا یہ سچ ہے کہ گلوان کی وادی چین کے حوالے کر دی گئی ہے؟‘‘

Grenzkonflikt zwischen Indien und China
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وادی گلوان سے متعلق وضاحت کریں کہ وہ اس وقت کس کے کنٹرول میں ہے؟ تصویر: picture-alliance/AP Photo/Manish

دوسری جانب نریندر مودی کی حکومت ابھی تک اس چینی دعوے کے حوالے سے خاموش ہے اور اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے گریزاں ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا ہے کہ وہ فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔

تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ دعوی 'مبالغہ آمیز‘ ہے۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق اگر چینی دعویٰ غلط ہوتا تو بھارت کی مرکزی حکومت کی طرف سے فوری طور پر اس کی تردید کر دی جاتی۔

بھارت کے لیے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ تقریباً ناممکن

چین اور بھارت کے درمیان مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں حالیہ جھڑپ کے نتیجے میں بیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کی جانب سے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کے باوجود وہاں تناؤ برقرار ہے۔

'تفصیلات موجود ہیں، قصور صرف بھارت کا‘

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدگی کے پیچھے 'قصور صرف بھارت‘ کا ہے، ''اس دور دراز علاقے میں بھارتی افواج اپریل کے بعد سے یک طرفہ طور پر سڑکیں، پل اور دیگر بنیادی ڈھانچے تعمیر کر رہی ہیں۔‘‘ مئی میں ایک 'اشتعال انگیز کارروائی‘ کے بعد دونوں ممالک کے فوجی کمانڈروں نے اتفاق کیا تھا، ''بھارتی افواج ایل اے سی سے پیچھے ہٹ جائیں گی اور وہاں اپنی تنصیبات ختم کر دیں گی۔‘‘

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے بھارتی فورسز پر 'معاہدے کی خلاف وزری اور پیشہ وارانہ اشتعال انگیزی‘ کا الزام بھی عائد کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق متعدد بھارتی فوجی اب بھی چین کے قبضے میں ہیں لیکن چین نے اس کی تردید کی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مذاکرات کے بعد چین دس بھارتی فوجیوں کو رہا کر چکا ہے۔

دریں اثناء دونوں ملکوں نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل چاہتے ہیں اور دونوں ہمسایہ ریاستوں کے فوجی حکام اس سلسلے میں ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین اور بھارت دونوں ہی اس متنازعہ سرحدی علاقے میں اپنی عسکری قوت میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔

ا ا / م م (اے پی، ڈی پی اے)