سری لنکا: دولت مشترکہ سمٹ پر احتجاج کے سائے
13 نومبر 2013کولمبو حکومت جس تاثر کو ختم کرنا چاہتی ہے اس کی وجہ طویل خانہ جنگی کے دوران وسیع تر شہری ہلاکتیں، ذرائع ابلاغ کو مستقل طور پر ہراساں کیا جانا اور غنڈہ گردی کی سی سیاست بنی تھی۔
جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں برطانوی کامن ویلتھ سمٹ کا آغاز پندرہ نومبر جمعے کے روز ہو گا۔ لیکن عالمی سطح پر توجہ ابھی بھی سری لنکا کی اس ستائیس سالہ خانہ جنگی پر مرکوز ہے، جس دوران تامل باغیوں اور ملکی فوج دونوں نے ہی مبینہ طور پر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا اور بے پناہ مظالم کیے گئے۔
یہ خانہ جنگی عملی طور پر 2009ء میں ختم ہو گئی تھی۔ لیکن بین الااقوامی سطح پر ابھی تک اس بارے میں تنقید ختم نہیں ہوئی کہ خانہ جنگی کے فریقین نے ایک دوسرے پر ظلم کیے اور ان مظالم کی لپیٹ میں عام شہری بھی آئے۔
سری لنکا کی حکومت ابھی تک نہ تو ان مظالم کی مکمل چھان بین کرانے پر آمادہ ہے اور نہ ہی ذمہ دار افراد کو ابھی تک کوئی سزائیں سنائی جا سکی ہیں۔
سری لنکا میں آئندہ کامن ویلتھ کانفرنس میں اپنی شرکت سے کینیڈا اور بھارت کے رہنما انکار کر چکے ہیں۔ جن ملکوں نے اس سربراہی اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے، ان کے رہنما یہ وضاحتیں کر چکے ہیں کہ وہ سری لنکا کی حکومت کے ساتھ کھل کر بات چیت کریں گے۔
دولت مشترکہ کے اس اجلاس میں 87 سالہ برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم خود شرکت نہیں کریں گی بلکہ اس کانفرنس کی صدارت ان کے بڑے بیٹے اور برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کریں گے۔
کیریبیین کے علاقے کے سابق سفارت کار سر رونلڈ سانڈرز اس وقت اس پینل کے رکن ہیں، جسے اس بارے میں تجاویز پیش کرنا ہیں کہ سابق برطانوی نوآبادیوں کی اس تنظیم میں کس طرح کی اصلاحات متعارف کرائی جانا چاہییں۔
سر رونلڈ سانڈرز کہتے ہیں کہ یہ شرم کی بات ہے کہ کامن ویلتھ کی تنظیم کی حالت یہ ہو گئی ہے۔ رونلڈ سانڈرز کہتے ہیں، ‘‘سری لنکا کو اس کانفرنس کی میزبانی کا موقع دینے کا مطلب ہے کہ دو سال کے لیے اس تنظیم کی قیادت سری لنکا کے پاس چلی جائے گی۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہم دولت مشترکہ کی اقدار کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ یہ بات اس تنظیم کو ایک منافق تنظیم بنا دیتی ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کولمبو حکومت ایسے تمام بین الاقوامی مطالبات کو رد کرتی ہے کہ اسے غیر جانبدارانہ چھان بین کرانی چاہیے۔ اس کے برعکس سری لنکن حکومت یہ دعوے کرتی ہے کہ تامل باغیوں کی مسلح تحریک کے دوران اور خاص کر خانہ جنگی کے آخری مرحلے میں سرکاری دستے جنگ زدہ علاقوں میں کسی طرح کے شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔
یہی نہیں کولمبو حکومت کی طرف سے ملکی اور غیر ملکی صحافیوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران شدید نوعیت کے مظالم کی کہانیاں انہوں نے ہی گھڑی ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سری لنکا میں اس وقت ایک ایسی حکومت ہے، جو بہت حد تک کسی ایک خاندان یا قبیلے کی حکومت محسوس ہوتی ہے اور جس کے طرز عمل نے بہت سی مغربی جمہوری حکومتوں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سری لنکا میں اقتدار پر 2005ء سے صدر راجا پاکسے اور ان کے خاندان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ خود مہیندا راجا پاکسے صدر ہیں تو ان کے ایک بھائی وزیر اقتصادیات ہیں، ایک اور بھائی دفاع کے سیکرٹری ہیں تو تیسرے بھائی کولمبو میں اس قومی پارلیمان کے اسپیکر ہیں، جس پر راجا پاکسے کے حکومتی اتحاد کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔
اس وقت برطانوی دولت مشترکہ کے رکن ملکوں کی تعداد 53 ہے۔ اس تنظیم نے 1931ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک جمہوریت اور انسانی حقوق کو اپنی بنیادی اقدار میں شامل کر رکھا ہے۔
یہ تنظیم دنیا کی ایک تہائی آبادی کی نمائندہ تنظیم ہے۔ دولت مشترکہ کے لیے سری لنکا میں اس کے سربراہی اجلاس کے حوالے سے بری تشہیر اس تنظیم کے لیے تاریک سایہ بنتی جا رہی ہے۔ اس لیے اس تنظیم کو کولمبو حکومت کو قائل کرنا ہو گا کہ وہ بین الاقوامی مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ملک میں مبینہ جنگی جرائم کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے سلسلے میں مکمل تعاون کرے۔