سرینگر میں مزید ایک نوجوان کی ہلاکت اور مظاہرے
5 نومبر 2016آج ہفتہ پانچ اکتوبر کو ہونے والے مظاہرے کی وجہ ایک کشمیری ’ٹین ایجر‘ کی ہلاکت ہے۔ اس کے جنازے کے جلوس میں شامل نوجوان شرکاء پولیس کو دیکھ مشتعل ہو گئے اور انہوں نے بےقابو ہوتے ہوئے پولیس پر پتھراؤ کر دیا۔ اس جنازے کے شرکاء اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے دوران پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس اور چھرے والی بندوقوں کا استعمال کیا۔
پولیس کی جانب سے پھینکا گیا ایک آنسو گیس کا شیل جنازے کے انتہائی قریب گرا۔ شرکاء نے جنازے کو رکھ کر پولیس پر پتھراؤ کے سلسلے میں تیزی پیدا کر دی۔ جنازے کے جلوس میں شامل ایک دوسری ٹولی نے ہلاک ہونے والے نوجوان کی تدفین مکمل کی۔ تیس زخمیوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ سری نگر کے مرکزی ’شہداء قبرستان‘ کے کئی انٹری پوائنٹس پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان چھڑپوں کو رپورٹ کیا گیا ہے۔
سری نگر میں ہلاک ہونے والے نوجوان کے خاندان کے مطابق وہ پولیس کے شدید تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے مارا گیا تھا۔ یہ نوعمر ستائیس اکتوبر سے لاپتا تھا۔ خاندان کے افراد کے مطابق انہوں نے مسلسل اُس کی تلاش کا عمل جاری رکھا۔ لاپتا نوجوان بے ہوشی کی حالت میں دو روز قبل سڑک پر پایا گیا۔ ہسپتال میں داخل کرانے کے ایک ہی دن بعد وہ اندرونی چوٹوں سے جان بر نہیں ہو سکا اور دم توڑ گیا۔
پولیس نے ہلاک ہونے والے نوجوان پر تشدد کے الزامات کی تردید کی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رواں برس جولائی سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مظاہرے ایک علیحدگی پسند جنگ جو برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ تب سے اب تک نوے کے قریب کشمیری مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان زخمیوں میں وہ سینکڑوں افراد بھی شامل ہیں جو پولیس کی جانب سے چھرے والی گولیاں چلانے جزوی یا پوری طرح اپنی بصارت کھو بیٹھے ہیں۔ نابینا ہونے والوں میں کئی نوعمر بچے اور نوجوان بھی شامل ہیں۔
بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں شورش کی سرپرستی کا الزام پاکستان اور پاکستان میں موجود اسلامی انتہا پسند گروپوں پر عائد کرتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کشمیری علیحدگی پسندوں کے لیے اس کی حمایت صرف سیاسی اور سیاسی نوعیت کی ہے۔