سزائے موت: آسیہ بی بی کی اپیل پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ملتوی
8 اکتوبر 2018پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق آسیہ بی بی کو دستیاب جملہ عدالتی امکانات میں سے عین آخری مرحلے کی اس اپیل کی سماعت ملکی سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی خصوصی بینچ نے کی، جس کی سربراہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کر رہے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے اس اپیل کی سماعت آج پیر آٹھ اکتوبر کے روز کی اور کارروائی کی تکمیل پر اپنے فیصلے کا اعلان ملتوی کر دیا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ فیصلہ مستقبل میں کب سنایا جائے گا۔
آسیہ بی بی کے وکیل صفائی سیف الملوک نے آج کی سماعت سے قبل کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ آسیہ بی بی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپنی اس آخری قانونی اپیل میں کامیاب رہیں گی۔ سیف الملوک نے کہا تھا کہ اگر یہ اپیل منظور نہ ہوئی، تو وہ نظر ثانی کی درخواست دائر کریں گے، جس کے مکمل ہونے میں ممکنہ طور پر مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔
سیف الملوک نے اتوار سات اکتوبر کی رات نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، ''مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ آسیہ بی بی کو بری کر دیا جائے گا۔ ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔‘‘
اے پی نے اس مقدمے کے پس منظر کے بارے میں لکھا ہے کہ 2009ء کے ایک گرم دن، جب آسیہ بی بی اور اس کی چند ساتھی زرعی کارکن خواتین کھیتوں میں کام کر رہی تھیں، وہ سب کے لیے پینے کا پانی لینے گئی اور اس نے مبینہ طور پر ایک ایسے برتن سے پانی نکال کر پی لیا، جو مسلم خواتین کے پینے کے لیے وہاں رکھا ہوا تھا۔ اس پر وہاں موجود افراد نے مبینہ طور پر آسیہ بی بی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہو جائے۔ جب آسیہ نے انکار کیا، تو مقامی افراد کے ایک مشتعل ہجوم نے پانچ روز بعد اس پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا تھا۔
ان واقعات کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور پھر اس کے خلاف مقدمے کی سماعت ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں اسے پیغمبر اسلام کی توہین کے جرم میں سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اس بارے میں آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے آٹھ اکتوبر کی سماعت سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ وہ پاکستانی سپریم کورٹ کی توجہ ان تضادات کی طرف دلوائیں گے، جو اس مقدمے میں آسیہ بی بی کے خلاف گواہوں کے بیانات میں موجود تھے۔
وکیل صفائی سیف الملوک نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش بھی کریں گے کہ اس مقدمے میں آسیہ بی بی کے خلاف بیانات دینے والے گواہ اسلامی قوانین کے تقاضوں کے برعکس 'پاکباز‘ نہیں تھے۔
آسیہ بی بی کو اس کے خلاف مقدمے میں سنائے جانے والے سزائے موت کے عدالتی حکم پر پاکستان میں اور بیرون ملک بھی سخت تنقید کی گئی تھی۔ بہت سے حلقوں کا الزام ہے کہ توہین مذہب کے موجودہ پاکستانی قانون کو کئی انتہا پسند مذہبی حلقوں کی طرف سے اکثر مذہبی بنیادوں پر نفرت اور ذاتی دشمنیاں نمٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
م م / ع ب / اے پی، روئٹرز