سزائے موت سے منشیات کی اسمگلنگ کم نہیں ہوتی، ایرانی عدلیہ
27 اگست 2016ملکی دارالحکومت تہران سے ہفتہ ستائیس اگست کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں منشیات کی روک تھام سے متعلق ریاستی کوششوں کے حوالے سے یہ نئے حقائق ملکی عدلیہ کے ایک انکوائری بورڈ کی رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم نے لکھا ہے کہ اس تفتیشی بورڈ کے سربراہ محمد باقر الفت نے جو نتائج پیش کیے ہیں، وہ ’آنکھیں کھول دینے والے‘ ہیں۔ باقر الفت نے کہا، ’’وہ متوقع نتائج جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے، حاصل نہیں ہو سکے۔ ایران میں اسمگل کی جانے والی منشیات کی اقسام اور مقدار اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہو گئی ہیں۔‘‘
محمد باقر الفت نے ’تسنیم‘ کو بتایا، ’’مجرموں کے لیے سزائے موت کا طریقہ کار مؤثر ثابت نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سزائیں اسمگلروں کو دی جاتی ہیں، نہ کہ ان جرائم پیشہ عناصر کو جو پس منظر میں رہ کر یہ کاروبار کرواتے ہیں۔‘‘
الفت نے کہا، ’’منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے سرغنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گرفتاری کی صورت میں انہیں طویل مدت کی قید کی سزائیں اور جبری مشقت کے حکم سنائے جائیں۔‘‘
کئی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق ایران ہر سال دنیا بھر میں سب سے زیادہ مجرموں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2015ء میں ایران میں 977 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ اس کے علاوہ اس سال اگست کے آخری دنوں تک وہاں جن مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا، ان کی تعداد بھی 700 سے زائد بنتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں منشیات کی اسمگلنگ یا کاروبار سے متعلقہ جرائم اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمات میں مجرموں کو زیادہ تر موت کی سزا ہی سنائی جاتی ہے لیکن اب ملک میں اس حوالے سے شبہات مسلسل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کہ یہ سخت سزائیں بھی ایسے جرائم کے مرتکب افراد کی قبل از جرم حوصلہ شکنی کے لیے مددگار ثابت نہیں ہو رہیں۔
ایران میں منشیات کے اسمگلروں اور منشیات بیچنے والوں کو عدالتیں زیادہ تر اس لیے موت کی سزائیں سناتی ہیں کہ عدلیہ کی رائے میں ایسے مجرم ہزارہا نوجوانوں کی موت کی وجہ بنتے ہیں اور اسی لیے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔