سعودی اور اماراتی یقین دہانیاں: کیا کچھ عملاً ممکن ہے؟
5 ستمبر 2019آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز کے مطابق سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل احمد الجبیر اور اماراتی وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان نے آج آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی اور یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے ممالک اس صورت حال کو حل کرنے کی کوشش کریں گے جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نئی دہلی کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
تاہم ناقدین ان یقین دہانیوں کو پبلک ریلشنز شپ کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں دونوں ممالک کے بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی تعلقات ہیں اور وہ پاکستان کے لیے یہ تعلقات قربان نہیں کریں گے۔ معروف سیاست دان اور سابق وفاقی وزیر مملکت برائے صنعت و پیداوار آیت اللہ درانی کے خیال میں یہ ممالک کبھی بھی غیر مشروط طور پر پاکستان کی حمایت نہیں کریں گے۔ "درانی کے مطابق سعودی عرب چاہے گا کہ پاکستان اسرائیل کے لیے رویہ نرم کرے اور اگر اسلام آباد ایسا کرتا ہے تو ریاض اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں رائے عامہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف ہورہی ہے کیونکہ امارات نے مودی کو اعلیِ شہری اعزاز دیا اور سعودی عرب نے کشمیر کے مسئلے پر کوئی خاص موقف اختیار نہیں کیا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے وزراء اپنے ممالک کے خراب ہوتے ہوئے امیج کو بہتر کرنے کے لیے آئے ہیں اور وہ عملی طور پر کبھی بھی بھارت پر دباو نہیں ڈالیں گے۔
ایوب ملک مزید کہتے ہیں کہ سعودی ولی عہد نے حالیہ مہینوں میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھارت میں کرنے کا کہا ہے اور دونوں ممالک کشمیر میں بھی ایسی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کچھ عرصے پہلے پاکستان میں خطیر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وفا نہیں ہوا۔
اس باعث عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ ان یقین دہانیوں پر بالکل بھی بھروسہ نہین کرنا چاہیے۔ تاہم معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب کا خیال ہے کہ یہ دونوں ممالک بھارت سے بات چیت کریں گے۔