سعودی عرب بے چينی اور مظاہروں سے محفوظ
10 نومبر 2011علاقے کی بادشاہتوں کے ساتھ قدامت پسند سعودی عرب کے تعلقات اچھے ہيں اور اب کچھ نئی شکل اختيار کر رہے ہيں۔
سعودی عرب نے بحرين کے شاہی خاندان کو ملک ميں برپا بغاوت سے بچانے کے ليے وہاں اپنی فوج بھيجی تھی، ليکن دوسری طرف وہ شام ميں عوامی بغاوت کو طاقت کی مدد سے کچلنے پر شامی حکومت پر تنقيد کر رہا ہے۔ اس سفارتی اعتبار سے کھلی تنقيد سے پہلے سعودی حکومت نے کافی انتظار کيا تھا۔ اور يہ بھی صرف اس وجہ سے کی گئی کيونکہ سعودی عرب اور شام کی سفارتی تاريخ طويل اور پيچيدہ ہے، جس کے دوران شامی صدر اور سعودی بادشاہ کے درميان اکثر مخاصمت ہوتی رہی ہے۔ وہ دونوں ذاتی طور پر ايک دوسرے کو پسند نہيں کرتے۔ اس کے علاوہ شام کو مشرق وسطٰی ميں ايک امريکہ مخالف شيعہ رجحان رکھنے والے محور کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جس ميں ايران کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ تنظيم بھی شامل ہے۔ سياسی جغرافيائی لحاظ سے يہ گروپ سعودی عرب کا بالکل مخالف ہے۔ اس کے مقابلے ميں بحرين ہميشہ ہی سے سعودی عرب کے بہت نزديک ہے۔
سعودی عرب شامی رکنيت کو منجمد کر دينے کی اپنی تجويز کو عرب ليگ ميں نہيں منوا سکا حالانکہ اُسے علاقے کے اُن چند ممالک ميں قوی اثرو رسوخ حاصل ہے، جو خود ابھی تک کسی انقلاب کے تجربے سے نہيں گذرے ہيں۔ خليجی تعاون کونسل ميں شامل ممالک سے سعودی عرب کے روابط بہت اچھے ہيں۔ سعودی عرب مراکش اور اردن کی بادشاہتوں کو خليجی تعاون کونسل ميں شرکت کی دعوت دے چکا ہے، جو خليج سے ايک دو ہزار کلوميٹر دور واقع مراکش کے ليے ايک عجيب سا تصور تو ہو سکتا ہے، ليکن دونوں بادشاہتيں خليجی تعاون کونسل سے مذاکرات شروع کرنے والی ہيں۔ اس سعودی تجويز کے پيچھے يہ خيال کار فرما ہے کہ باقی رہ جانے والی قدامت پسند حکومتيں ايک مشترکہ دفاعی محاذ قائم کر رہی ہيں، جو سعودی سرکردگی ميں ايک واضح انقلاب مخالف محاذ ہو گا۔
سعودی عرب کی سفارت، داخلی، ثقافتی اور مذہبی سياست پر قدامت پسندی کا بہت گہرا اثر ہے۔ سعودی عرب نے يہ مشاہدہ کيا ہے کہ مصر ميں اُس کے پرانے ساتھی حُسنی مبارک پر کيا بيتی ہے اور کوشش يہ کی جا رہی ہے کہ کم ازکم قدامت پسند ساتھی ممالک ميں انقلابات برپا نہ ہونے پائيں۔ مبينہ طور پرايک پيغام يہ بھی ہے کہ مراکش يا اردن جيسے ممالک ميں اصلاحات کچھ حدود سے تجاوز نہ کرنے پائيں۔
سعودی عرب ميں بادشاہ کو ايک جائز حکمران کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ وہاں نئی ملازمتوں اور سماجی فلاحی کاموں پر اگلے تين چار برسوں ميں 130 ارب ڈالر کے مساوی رقم خرچ کی جائے گی۔ اس طرح سے بھی وہاں اُس بے اطمينانی اور بے چينی کو روکا جا سکتا ہے، جو دوسرے عرب ممالک ميں ہنگاموں کی ايک بڑی وجوہات تھيں۔
رپورٹ: آنے المے لنگ / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک