سعودی عرب میں لبرل اصلاحات، پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
13 اکتوبر 2017تجزیہ نگاروں کے خیال میں سعودی عرب پاکستان میں مختلف مذہبی تنظیموں اور مدارس کی کئی دہائیوں سے مالی مدد کر رہا ہے اور اب یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کیا اس سعودی پالیسی پر بھی کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔
ممتاز تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شہزادہ محمد بن سلمان کی اصلاحات سے صورتِ حال بہتر ہوگی اور اس کا فرق پاکستان کے مدارس اور مذہبی جماعتوں پر بھی ہوگا۔ پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب کو اپنی اس تشویش سے آگا ہ کیا تھا کہ سخت گیر مذہبی تنظیموں اور مدارس کو سعودی عرب کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے۔ اُس وقت سعودی حکومت کا یہ موقف تھا کہ ریاض براہِ راست کسی تنظیم یہ مدرسے کی مالی امداد نہیں کرتا۔ ایسی امداد حکومتِ پاکستان کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تاہم سعودی عرب میں خیراتی ادارے اور سماجی تنظیمیں دنیا بھر میں مذہبی تنظیموں اور مدارس کی مالی مدد کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ زیادہ ترسعودی سماجی تنظیموں اور خیراتی اداروں کو سعودی شاہی خاندان کے افراد یا ان کے رشتے دار ہی چلا رہے ہیں۔ امید ہے کہ اب سعودی حکومت ان افراد کو ایسی تنظیموں اور مدارس کی مالی مدد کرنے سے روکے گی، جو سخت گیر مذہبی رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔‘‘
امجد شعیب کا کہنا تھا ،’ مدارس میں اصلاحات بہت ضروری ہیں اور اس کے لئے کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر نے ان اصلاحات کے حوالے سے علماء اور مدارس کے اکابرین سے بات چیت کی تھی اور انہیں بہت مثبت تاثر دیا گیا تھا۔ میرے خیال میں ان اصلاحات کو فوری طورپر متعارف کرایا جانا چاہیے اور اگر سعودی عرب اس میں کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے تو ان کے کسی بھی دباؤ کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
دوسری جانب ترقی پسند دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں سعودی عرب پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی نہیں بدلے گا۔ معروف دانشور ڈاکڑ مہدی حسن نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سعودی عرب نے مدارس اصلاحات میں روڑے اٹکائے۔ پاکستان میں انہوں نے وہابی مکتبہء فکر کے افراد اور تنظیموں کی مالی مدد کی۔ حالانکہ اہلحدیث افراد پاکستان میں تعداد میں بہت کم ہیں لیکن وہ گزشتہ چند دہائیوں میں بہت با اثر بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض نے دیوبندی مکتبہء فکر کے مدارس کی بھی خوب مالی مدد کی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھی قدامت پرست بادشاہت کی حمایت حاصل رہی۔ اس مکتبہء فکر کی مدد اس لئے کی گئی کہ یہ اہلِ حدیث نظریات کے کچھ قریب ہے۔ ملک میں اکثریت بریلوی افراد کی ہے اور مدارس زیادہ دیوبندی مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی مالی مدد کہیں سے ہوتی ہے۔ ان تنظیموں اور مدارس نے سعودی عرب کی کئی محاذوں پر حمایت کی ہے تو ریاض اپنی پالیسی پر کیوں کر نظرِ ثانی کرے گا۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا بھی ڈاکڑ مہدی حسن کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سعودی عرب کو پاکستان کا درد کیوں ہوگا۔ ریاض وہابیت کو پھیلانے والی اپنی پالیسی جاری رکھے گا۔ پاکستان میں سعودی نواز تنظیمیں ریاض کی خارجہ پالیسی کے مقاصد میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں تو قدامت پسند بادشاہت ان لوگوں سے اپنا ہاتھ کیوں اٹھائے گی۔ میر ے خیال میں سخت گیر مذہبی تنظیموں کی حمایت بھی جاری رہے گی اور مدارس کو بھی پیسہ ملتا رہے گا۔ اس کے علاوہ مشرف کے دور سے مدارس میں اصلاحات متعاراف کرانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ بھی کامیاب نہیں ہوں گی کیونکہ ریاض پاکستانی مدارس کے نصاب میں ترمیم کو پسند نہیں کرتا۔‘‘