سعودی عرب نے کم عمر افراد کے لیے سزائے موت ختم کر دی
27 اپریل 2020سعودی عرب نے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے کا سلسلہ ترک کر دیا ہے۔ یہ بات سعودی عرب میں حکومتی حمایت یافتہ ہیومن رائٹس کمیشن نے اتوار 26 اپریل کو اپنے ایک بیان میں کہی۔ سعودی شاہی خاندان کی طرف سے ملک میں اصلاحات لانے کی کوششوں کی یہ تازہ کڑی ہے۔
یہ اعلان سعودی عرب کی طرف سے کوڑے مارنے کی سزا ختم کیے جانے کے فیصلے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔کمیشن کے مطابق تازہ اصلاحات کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی ایسے شخص کو سزائے موت نہ دی جائے جس نے کم عمری میں اس طرح کا کوئی جرم کیا ہو۔ کمیشن کے سربراہ عواد العواد کے مطابق: ''اس کی بجائے ایسے فرد کو کم عمروں کی جیل میں 10 برس سے زائد عرصے تک بطور سزا رکھا جائے گا۔‘‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران اور چین کے بعد سعودی عرب تیسرے نمبر پر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں سعودی عرب میں 184 افراد کو سزائے موت دی گئی جن میں کم از کم ایک شخص ایسا تھا جس نے جرم اُس وقت کیا تھا جب وہ کم عمر تھا۔
سعودی عرب اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کا دستخط کنندہ ہے جس کے مطابق کم عمری میں کیے جانے والے جرم پر سنگین سزا نہیں دی جا سکتی۔
سعودی عرب کے اس تازہ فیصلے کے بعد ملک کی شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے ان چھ افراد کی جان بچ سکتی ہے جنہیں سزائے موت دیے جانے کا امکان تھا۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایسے لوگ بھی سزائے موت سے بچ سکتے ہیں جنہوں نے کم عمری میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کیے ہوں۔
قدامت پسند مسلم ملک سعودی عرب میں شرعی قوانین کے تحت سزا دینے کا کوئی مرتب شدہ ضابطہ نہیں ہے اسی باعث یہ مختلف ججوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ شرعی احکامات کی اپنے مختلف فیصلوں میں کس طرح توجیح کرتے ہیں۔
ا ب ا / ع ا (اے پی، روئٹرز)