سعودی فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے، پاکستان
10 اپریل 2015یمن کی صورتحال پر پانچ روز تک جاری رہنے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے معاملے پر بحث کے بعد جمعےکے روز وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بارہ نکات پر مشتمل ایک متفقہ قرارداد ایوان میں پیش کی۔
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان یمن کے تنازعے کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں سرگرم سفارتی کردار ادا کرے گا۔ قرارداد کے مطابق یمن میں جاری جنگ فرقہ وارانہ نوعیت کی نہیں ہے لیکن اس کے فرقہ وارانہ تنازعے میں تبدیل ہونے کے امکانات موجود ہیں، جس کے پاکستان سمیت خطے پر سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس متفقہ قرار داد میں پاکستانی پارلیمان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت یا حرمین شریفین کو کسی قسم کے خطرے کی صورت میں سعودی عرب کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ہے۔
قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکین کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد میں یمن میں پھنسے افراد کی مشکلات اور وہاں سلامتی کی صورت حال اور اس کے خطے کی سلامتی اور امن پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے شدید تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
قرارد میں یمن میں قیام امن کے لیے پاکستانی حکومت کی کوششوں کے جاری رہنے اور مسلم ممالک کے تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا گیا ہے کہ یمن میں موجود دھڑے اپنے اختلافات پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے جبکہ بین لاقوامی برادری اور مسلم امّہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ یمن میں قیام امن کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کرے۔
متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے یمن سے اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بھی سراہا گیا اور خصوصاً ہمسایہ ملک چین کے تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔
اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تمام پارلیمانی جماعتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد ایوان میں موجود جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات میں اتفاق ِرائے کے بعد تیار کی گئی ہے۔
جمعے کے روز اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف بھی شریک ہوئے۔اجلاس کے بعد اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت نے متفقہ قرارداد کی منظوری کو پارلیمنٹ کی کامیابی قرار دیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی غلام احمد بلور نے کہا کہ ’’اراکین کی اکثریت نے اپنی تقاریر کے دوران ہی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان کو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر امن کے لیے پاکستان کوئی کردار ادا کر سکتا ہے تو وہ زیادہ اہم اور بڑی بات ہوگی نہ کہ ایک پرائی جنگ کا حصہ بننا۔‘‘
جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دوستی کا تقاضا یہی ہے کہ اسے جنگ سے بچایا جائے۔ پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یمن کی موجودہ صورتحال کو پرامن طریقے سے حل نہ کیا گیا تو اس میں سعودی عرب اور یمن سمیت دیگر اسلامی ممالک کا نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ کسی سازش کے نتیجے میں امن کا آخری قلعہ سعودی عرب مشکل کا شکار ہو۔ سعودی عرب کے ساتھ تعاون بھی یہی ہو گا کہ اسے جنگ سے بچایا جائے۔‘‘
خیال رہے کہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں ریاض کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفد سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں پاکستان سے بّری، بحری اور فضائی تعاون فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
تاہم حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت سے اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم نے چھ اپریل کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستانی پارلیمنٹ کی جانب سے اسی طرح کا اعلان متوقع تھا کیونکہ صرف حکومت کے لیے صاف الفاظ میں سعودی عرب کو فوجی امداد کی درخواست کے جواب میں 'نہ' کہنا آسان نہیں تھا۔