سعودی مہمان کی آمد: اپوزیشن اور میڈیا کو دور رکھنے پر تنقید
17 فروری 2019اتوار کی شام اسلام آباد پہنچنے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اس دورے کے دوران کوئی ایسی پریس کانفرنس ابھی تک نہیں رکھی گئی، جس میں ملکی میڈیا کو مدعو کیا گیا ہو اور نہ ہی دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کی کسی مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بڑے اداروں کو مدعو کیا گیا ہو۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاست دان اور صحافی حکومت کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے اس دورے کے دوران تقریباﹰ دس ارب ڈالر مالیت کے منصوبوں کی مفاہمتی دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے۔ پاکستانی معیشت اس وقت شدید بد حالی کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ساٹھ فیصد سے زیادہ بجٹ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں چلا جائے گا جب کہ ملک کو تقریباﹰ بیس بلین ڈالر مالی خسارے کو پورا کرنے اور دیگر امور کے لیے چاہییں۔
اسلام آباد کو آنے والے مہینوں میں ممکنہ طور پر بارہ بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے جرمانوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ جرمانے مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وجہ سے عائد کیے جانے کا خدشہ ہے۔
اس صورت حا ل میں پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سعودی عرب چھ بلین ڈالر مختلف شرائط پر پاکستان کو دے چکا ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان سعودی عرب کو کبھی بھی ناراض نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر صحافیوں کو دعوت دیتے، تو وہ جمال خاشقجی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی سوال پوچھ سکتے تھے، جس پر سعودی ولی عہد ناراض ہوتے اور مالی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے۔ اس لیے صحافیوں کو سعودی مہمان سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستانی صحافیوں نے حالیہ ہفتوں میں بڑے پیمانے پر جبری بر طرفیوں کے خلاف مظاہرے بھی کیے ہیں اور حکومتی اکابرین کے پروگراموں کا میڈیا بائیکاٹ بھی۔ معروف صحافی اور روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیاالدین کے خیال میں کوئی صحافی عمران خان سے ان بر طرفیوں کے بارے میں بھی پوچھ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ممکن ہے کہ اس لیے بھی صحافیوں کو دعوت نہ دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستانی اور سعودی دونوں حکومتوں نے ہی یہ فیصلہ کیا ہو کہ صحافیوں کو دعوت نہیں دی جائے گی۔‘‘
ضیاالدین نے کہا کہ کو ئی بھی صحافی جمال خاشقجی کے حوالے سے سوال نہیں کرتا۔ ’’تاہم صحافی اس مسئلے کو سوشل میڈیا پر اٹھا رہے ہیں۔ وہ یقیناً اس مسئلے پر ٹی وی پروگرام نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی پیشہ ور ایڈیٹر اس کی اجازت بھی دینا چاہے، تو بھی مالکان ایسے کسی پروگرام کی اجازت نہیں دیں گے۔ میرے خیال میں عمران خان ابھی تک اپنے دل کو وسیع نہیں کر پائے۔ اسی لیے انہوں نے نہ ہی صحافیوں کو مدعو کیا اور نہ ہی حزب اختلاف کو۔‘‘
معروف صحافی مطیع اللہ جان کے خیال میں حکومت نے صحافیوں کو اس لیے دعوت نہیں دی کہ وہ ان سے جان چھڑانا چاہتی ہے جب کہ حزب اختلاف کو اس لیے دعوت نہیں دی گئی کہ حکومت ان کی ’تذلیل‘ کرنا چاہتی ہے۔
سیاست دانوں کے خیال میں حکومت تلخ سوالات سے پریشان ہے۔ اسی لیے اس نے میڈیا اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کو سعودی ولی عہد کے دورے سے دور رکھا ہے۔ کچھ سیاست دانوں کو گوادر اور بلوچستان میں سعودی سرمایہ کاری پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر حاصل بزنجو اس پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے پختون علاقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی نہ صرف اس سرمایہ کاری پر خدشات کا اظہار کر رہی ہیں بلکہ وہ اس دورے پر بھی کئی سوالات اٹھا رہی ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کے خیال میں اگر انہیں سعودی ولی عہد کے اعزاز میں کسی پروگرام میں بلایا جاتا، تو وہ ان سوالات کو حکومت اور سعودی مہمان کے سامنے ضرور اٹھاتیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کی ساری جماعتیں نہیں، بلکہ کچھ جماعتیں سعودی ولی عہد کی تقریبات کے دوران سخت سوالات کر سکتی تھیں۔ ’’مثال کے طور پر یہ جماعتیں یہ واضح کر سکتی تھیں کہ پاکستان یمن یا ایران کے خلاف کسی بھی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔ وہ گوادر میں ہونے والی سرمایہ کاری پر بھی سوالات اٹھاتیں اور خطے کی صورت حال کو بھی زیرِ بحث لاتیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستان میں زرعی زمین خریدنا چاہتا ہے۔ حکومت کو خطرہ تھا کہ یہ جماعتیں اس حوالے سے بھی سوالات اٹھاتیں۔ تو ہمارے خیال میں صرف ملازمین کو اس میں دعوت دی گئی ہے اور ہماری جماعت ملاز م نہیں ہے۔ ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں کرائے کے سپاہی نہیں بننا چاہیے بلکہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔‘‘