سعودی کاروباری شخصیات سے میرکل کی ملاقات
26 مئی 2010جرمن چانسلر کے اس دورے میں خطے میں سلامتی کےامور، ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام اور مشرق وسطٰی امن مذاکرات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس کے علاوہ تجارتی عدم توازن پر بھی بات چیت جاری ہے۔ جرمنی برآمدات کی حد سے زیادہ بھاری مقدار بین الاقوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ تاہم جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے اِس دورےکے دوران تجارت میں توازن کی بات کی ہے۔
’’سعودی عرب کا شمار عرب دنیا کی مضبوط اقتصادی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے جرمنی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دے سکتا ہے۔ مجھے اس دورے کے دوران اندازہ ہوا کہ سعودی عرب نے مستقبل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تیاریاں کی ہوئی ہیں۔‘‘
سعودی اقتصادی مرکز جدہ میں تجارت میں توازن پیدا کرنے کے لئے ہونے والی بات چیت میں سعودی حکام کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے سرکاری نمائندے بھی موجود تھے۔ جرمن سعودی اقتصادی فورم سے گفتگو کرتے ہوئے چانسلر میرکل نے کہا کہ وہ دو طرفہ تجارت میں توازن پیدا کرنے کی سعودی خواہش کو سمجھتی ہیں اور وہ اس صورتحال پرسنجیدگی سے غور کریں گی۔ جرمنی سعودی عرب کو اشیاء برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن جرمنی کی درآمدی فہرست میں سعودی عرب تیسویں نمبر پر آتا ہے۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کے معاملے پر اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں اورخواتین کے درمیان پائے جانے والے فرق پر بھی اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ جرمن چانسلر نے مساوی حقوق کے بارے میں کہا کہ سعودی معاشرے میں اس حوالے سے بہتری تو ہو رہی ہے تاہم یہ کہ اس کی رفتار قدرے کم ہے۔
’’ہم نے شاھ عبداللہ یونیورسٹی میں دیکھا کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ مخلوط نظام تعلیم سعودی عرب میں اورکسی جگہ نہیں ہے۔‘‘
اس دوران جرمن چانسلر نے سعودی ایوان صنعت و تجارت کا بھی دورہ کیا۔ ایوان صنعت و تجارت کے صدر صالح کمال نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی فرق کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ اس تجارتی عدم توازن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرمنی خلیجی ممالک سے دوسروں کے مقابلے میں کم مقدار میں تیل اور گیس برآمد کرتا ہے۔ میرکل کے بقول تجارت میں برابری صرف خام مال کی خرید و فروخت سے ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ توازن طویل المدتی اور جدید سائنسی بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے۔ چانسلر میرکل آج اپنے دورے کی اگلی منزل قطر اور بحرین روانہ ہو گئی ہیں۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی