سعودی کینیڈین تنازعہ، اوٹاوا کی مغربی ممالک سے مدد کی اپیل
10 اگست 2018کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا سے جمعہ دس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے اس تنازعے کی سفارتی حساسیت کے پیش اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کینیڈین وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ اس تنازعے کے حل کے لیے کم از کم دو اہم یورپی ممالک کے اپنے ہم منصب وزراء کے ساتھ بات چیت کر چکی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق کینیڈا کی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے موجودہ سفارتی تنازعے میں اب جرمنی اور سویڈن سے جو رابطے کیے ہیں، ان کی ایک خاص وجہ ہے، اور وہ یہ کہ ماضی میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف خلاف آواز اٹھانے پر ریاض حکومت ان دونوں ممالک کو بھی ٹارگٹ بنا چکی ہے۔
کینیڈا اور سعودی عرب کے مابین موجودہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب کینیڈین خاتون وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک حالیہ پیغام میں مطالبہ کیا تھا کہ ریاض حکومت کو حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی ان سرکردہ کارکنوں کو رہا کر دینا چاہیے، جنہیں حال ہی میں اس قدامت عرب ملسم بادشاہت میں گرفتارکر لیا گیا تھا۔
کرسٹیا فری لینڈ کا یہ پیغام ریاض حکومت کو پسند نہیں آیا تھا اور سعودی حکمرانوں نے اسے اپنے ملک کے ’واضح طور پر داخلی امور‘ میں کینیڈا کی ’کھلی مداخلت‘ کا نام دیتے ہوئے اسے ’قطعی طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا۔
اب تک یہ تنازعہ اتنا پھیل چکا ہے کہ اسی وجہ سے سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اپنی کئی تجارتی سرگرمیوں پر عمل درآمد بھی روک دیا ہے اور کینیڈا میں زیر تعلیم بہت سے سعودی طالب علموں کو بھی واپس وطن لوٹنے کا حکم دے دیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق کینیڈا نے سعودی عرب کے ساتھ اس تنازعے میں اب جرمنی اور سویڈن سے رابطے اس لیے بھی کیے ہیں کہ یہ سمجھا جا سکے کہ برلن اور سٹاک ہوم میں ملکی حکومتوں نے ریاض کے ساتھ اپنے اپنے اختلافات کس طرح ختم کیے تھے۔
اسی دوران خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں، فلاحی اداروں اور شہری حقوق کے لیے فعال متعدد گروپوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی کینیڈا کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں تاکہ سعودی عرب کو اپنے ہاں خواتین اور ان کے حقوق کے احترام پر مجبور کیا جا سکے۔
اے ایف پی نے مزید لکھا ہے کہ کینیڈا کی حکومت اس تنازعے میں مشوروں کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مضبوط روابط کے حامل یورپی ملک برطانیہ اور خلیج کی ایک اہم ریاست متحدہ عرب امارات سے بھی رابطوں کی کوششوں میں ہے۔
م م / ا ا / اے ایف پی